سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کاپاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک پر شدید تحفظات کا اظہار

ہفتہ 27 مئی 2017 22:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 مئی2017ء) سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں نے گوادر میں سندھ سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے بہیمانہ قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دونوںصوبوں کے پسے ہوئے لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ایک گھنائونی سازش قراردیتے ہوئے سندھ بلوچستان یکجہتی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو آئندہ اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے گی۔

سندھ و بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کا ایک اہم اجلاس ہفتہ کو سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید جلال محمود شاہ کی قیام گاہ حیدر منزل میں ہوا جس کے بعد اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں کا اعلان سید جلال محمود شاہ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ہفتہ کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا، اس موقع پر دوسری قوم پرست جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے،بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل نے پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے آغاز میں ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا اب وہ حقیقت نظر آرہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گوادر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے وہاں گزشتہ تین روز سے گوادر کے رہنے والے پانی کی عدم دستیابی پر سرپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ آئندہ والے دنوں میں سی پیک منصوبہ پاکستان کے لئے دوسرا ایسٹ انڈیا جیسا منصوبہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کے سبب پاکستان گروی ہوجائے گا، بلوچستان کی آبادی بہت کم ہے اور کچھ ہی عرصے بعد وہاں ہر طرف چینی شہری نظر آرہے ہوں گے اور بلوچستان چائنا ٹائون بن جائے گا۔

انہوں نے بلوچستان کی موجودہ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے حکومت نہیں سمجھتے بلکہ وہاں علی بابا اور چالیس چوروں کی حکمرانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن میں سے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے کے ہاتھ میں توپ ہے اور وہ دونوں ہی بظاہر نظر نہیں آتے اور یہی لوگ سندھ اور بلوچستان کے غریب عوام میں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہم ان کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ آج ہم سندھی اور بلوچ اپنی تاریخی قومی رشتے اور تعلق کومضبوط کرنے اور جوڑنے کے لئے یہاںجمع ہوئے ہیں۔ سندھی اور بلوچ تاریخی طور پر نہ صرف ایک دوسرے کے مددگار رہے ہیںبلکہ ان کے دکھ سکھ، تکالیف اور مسائل بھی یکساں ہیں۔آج سندھی اور بلوچ کے قومی رشتے کو نقصان پہنچانے کے لئے جس طرح گوادر میں سندھی مزدورں کا قتل ہوا اس کی نہ صرف مشترکہ طور پر مذمت کرتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ سندھی اور بلوچ اقوام کے تعلقات اور قومی رشتے کو قتل کرنے کی سازش ہے جو ہم کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔

سندھی اور بلوچوں کا نہ صرف قومی رشتہ ہے بلکہ ہم ایک دوسرے کے مشکل وقت میں مددگار اور ساتھی بھی رہے ہیں۔اس بات کا بے انتہا دکھ ہوتا ہے کہ گوادار سانحہ کے پیچھے قوم پرستی کا نام استعمال ہوا۔ اس سانحہ کے پیچھے کوئی بھی ہولیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عمل سندھی اور بلوچوں کو لڑوا کر خوش ہونے والی قووتوں کا کام ہو سکتاہے۔ جلال نحمود شاہ نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس عمل سے قومی آزادی کی تحریک پروان چڑھے گی یا بلوچوں کے حقوق کی حاصلات ہو گی تو یہ ان کی بھول ہے۔

بلکہ اس عمل سے بلوچ اور سندھی قوم جو وفاقِ پاکستان میںاپنے قومی حقوق کی حاصلات کے لئیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کے لئیے آگے بڑھ رہی ہے اس کو سخت نقصان پہنچانے کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سندھی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے رہنما اور دانشور مشترکہ طور پر آج یہاں پر یہ واضع کردینا چاہتے ہیں کہ سندھ اور بلوچ اب بھی آپس میں متحد ہیں۔

ان کے قومی سلامتی اور قومی حقوق کی حاصلات کے لئیے دونوں ایک دوسرے کے لئیے لازم و ملزوم ہیں۔ہمارا رشتہ یہ بھی ہے کہ ہم دونوں کا قومی استحصال کرنے والا ایک ہی ہے۔اس لئے سندھی اور بلوچ قوم کے افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ آپس میں نفاق ڈالنے کی بجائے اتحاد پیدا کریںتاکہ اپنے قومی وسائل کی مالکی اور قومی حقِ حکمرانی حاصل کر سکیں۔ اس موقع پر انہوں نے سندھ بلوچستان یکجہتی کمیٹی کا قیام کا بھی اعلان کیا ، جس میں سید جلال محمود شاہ، سردار اختر جان مینگل، یوسف مستی خان، ڈاکٹر نیاز کالانی، امان اللهشیخ اور دو ممبر بلوچستان سے لیے جائیں گے۔

اجلاس میں حاجی شفیع جاموٹ، یوسف مستی خان، ڈاکٹر نیاز کالانی، امان الله شیخ، ریاض چانڈیو، علی نواز بٹ، امیر آزاد پنھور، خدا ڈنو شاہ، ڈاکٹر شفقت عباسی، فتاح چنا، نور احمد میمن، مظہر راھوجو، جی این مغل، اعجاز قریشی، ڈاکٹر دودو مہیری، اعجاز سامٹیو، روشن علی برڑو، ادریس چانڈیو اور امیر علی تھیبو نے شرکت کی۔