چوتھا پارلیمانی سال: بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی سست روی کا شکار رہی

چھ اراکین اسمبلی ایوان نے پورا سال ایوان کی کارروائی میں حصّہ نہیں لیا

اتوار 28 مئی 2017 20:40

کو ئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 مئی2017ء) بلوچستان اسمبلی کے اوقاتِ کار میں چوتھے پارلیمانی سال کے دوران گذشتہ سال کی نسبت نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم نشستوں کے طویل دورانیے کے باوجود قانون سازی کی رفتار پچھلے برس کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رہی۔بلوچستان اسمبلی کار کردگی پر مبنی فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس برس اسمبلی نے آٹھ قوانین کی منظوری دی جبکہ گذشتہ سال انیس قوانین منظور کیے گئے تھے۔

اوقاتِ کار میں اضافے کے سوا اسمبلی کی کارروائی کے دیگر اشاریوں میں کوئی قابلِ ذکر بہتری نہیں دیکھی گئی۔ گذشتہ برسوں کی طرح اسمبلی کی نشستوں کا آغاز مقررہ وقت کی بجائے خاصی تاخیر سے ہوا۔ اوسطاً ہر نشست 44 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوئی جبکہ پچھلے برس یہ اوسط 42 منٹ تھی۔

(جاری ہے)

اسی طرح اسمبلی کے نصف سے زیادہ ایّام کار تعطیلات میں صرف ہوئے۔ اجلاسوں کی اوسط حاضری بھی 33 اراکین فی نشست سے گر کر 32 اراکین فی نشست پر آگئی۔

قائدِ ایوان یعنی وزیراعلیٰ کی حاضری میں بھی نمایاں کمی آئی۔ موجودہ وزیراعلیٰ کی حاضری کی شرح 47 فیصد ہے جبکہ ان کے پیشرو وزیراعلیٰ کی حاضری کی شرح 74 فیصد تھی۔ حالیہ وزیراعلیٰ کا انتخاب سابقہ قائدِ ایوان کے استعفیٰ کے بعد 24 دسمبر 2015 کو ہوا تھا۔ مزیدبرآں چوتھے پارلیمانی سال کے دوران چھ بار کورم کی کمی کی نشاندہی کی گئی جبکہ گذشتہ سال چار بار کورم کی نشاندہی ہوئی تھی۔

سپیکر اسمبلی کی حاضری کی شرح 88 فیصد رہی اور انہوں نے 72 فیصد کارروائی کی صدارت کی جبکہ امسال بھی ڈپٹی سپیکر کا عہدے کا انتخاب منعقد نہیں کیا گیا۔ یہ عہدہ بھی دسمبر 2015 سے خالی ہے۔ جون 2016 سے مئی 2017 کے دورانیے میں صوبے میں دہشت گردی کے چار بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں 230 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 400 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ مزید برآں اس عرصے میں کرپشن کا ایک بڑا واقعہ (جس میں سابق و زیراعلیٰ کے مالی مشیر پر بھی شمولیت کا الزام عائد کیا گیا) اور صوبے میں جاری عسکریت پسندی میں ملوث سینکڑوں افراد کے ہتھیار ڈالنے کے واقعات اہم رہے۔

دوسری جانب صوبائی اسمبلی کے اراکین نے جن معاملات پر بحث کی ان میں امن عامہ، بدانتظامی، توانائی کے بحران، مردم شماری اور صوبے کے چند اضلاع میں شناختی کارڈ بلاک کرنے کے واقعات شامل ہیں۔ تاہم اسمبلی کی کارروائی صرف بحث تک ہی محدود رہی اور ان معاملات پر کسی قسم کی قانون سازی نہیں کی جاسکی۔ اسمبلی میں منظور کیے گئے آٹھ قوانین کی اکثریت کا تعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم میں صوبوں کے سپرد کئے گئے شعبوں سے تھا۔

یہ قوانین ٹریفک جرمانوں کی شرح میں اضافہ، سکیورٹی اہلکاروں کو صوبائی ملازمین کے لیے وضع کردہ نظم و ضبط کی پابندی سے چھوٹ، سستے مکانات کی تعمیر، اور بچوں، بزرگوں و معذور افراد کی فلاح سے متعلق تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کی شادیوں کو روکنے، خواتین کے لیے کمیشن قائم کرنے اور ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے قیام سے متعلق قانونی مسوّدات مزید غوروخوض کے لیے قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے گئے۔

اسمبلی نے انتظامی امور کو بہتر بنانے، توانائی کے بحران کا حل تلاش کرنے، صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے اور سیاسی معاملات کے حوال سے چوالیس قراردادوں کی منظوری بھی دی۔ دریں اثنا صوبائی اسمبلی کے قواعدِ کار میں چار ترامیم بھی منظور کی گئیں جن کا مقصد بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل، قائمہ کمیٹیوں کو ذیلی کمیٹیاں قائم کرنے کا اختیار دینا اور اہم معاملات پر بات کرنے کے لیے توجہ دلاؤ نوٹس، زیرو آور اور عوامی اہمیت ک نکات کے لیے قواعد وضع کرنا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ چار برسوں میں پہلی بار اسمبلی کے قواعد میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اسمبلی نے توجہ دلاؤ نوٹسوں کو مارچ 2017 میں قواعد کا حصّہ بنایا۔ اس وقت سے چوتھے سال کے اختتام تک اراکین اسمبلی نے چھ توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیے جن کے ذریعے امورِ نوجواناں پالیسی کی عدم موجودگی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ملازمت کی شرائط اور حکومتی اداروں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں تاخیر جیسے مسائل کی طرف حکومتی وزرا کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ اس کے علاوہ اراکین نے امن عامہ سے متعلق سات تحاریک التوا بھی ایوان میں پیش کیں اور اہم معاملات پر 153 سوالات کے ذریعے حکومت سے معلومات طلب کیں جبکہ پانچ سوالاتِ استحقاق بھی ایوان میں اٹھائے گئے۔

متعلقہ عنوان :