Live Updates

قومی اسمبلی اجلاس ،حکومت اور اپوزیشن میں پی ٹی وی پر خورشید شاہ کا خطاب نشر نہ کرنے کے معاملہ پر ڈیڈ لاک برقرار

منگل 30 مئی 2017 15:35

قومی اسمبلی اجلاس ،حکومت اور اپوزیشن میں پی ٹی وی پر خورشید شاہ کا خطاب ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 مئی2017ء) قومی اسمبلی کے اجلاس میں دوسرے روز بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پی ٹی وی پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا خطاب نشر کرنے کے حوالے سے معاملہ پر ڈیڈ لاک برقرار رہا‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے موقف پر بضد ہیں‘ مطالبہ منظور نہ ہونے پر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے بائیکاٹ کردیا‘ اپوزیشن نے بجٹ پر بحث میں حصہ نہیں لیا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سپیکر حکومت کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں وزیراعظم ہائوس کے گریڈ 21کے فیصلہ پر عمل کررہے ہیں بجٹ پر حکومتی بنچوں سے بحث کا آغاز کراکر ایوان کی روایت کو پامال کردیا۔ سپیکر نے اپنی پوزیشن سوالیہ نشان بنا لی ہے۔ سپیکر اپنے فیصلہ کے بجائے پرچی پر لکھے گئے فیصلے پڑھ کر سنا رہے ہیں حکومت نے ایوان کے تقدس کو پاش پاش کردیا ہے‘ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر ہمیشہ براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اپوزیشن لیڈر کے لئے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ سید خورشید شاہ نے گزشتہ چار سال کے دوران جمہوریت کے لئے مثبت کردار ادا کیا۔ اب ان کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ خورشید شاہ ٹریپ نہ ہوں اور کسی شرارت کا حصہ نہ بنیں۔ وہ ایسی جماعت کے پیچھے مت چلیں جو پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ رانا تنویر حسین کی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تنقید پر ایوان میں تحریک انصاف کے ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور گو نواز گو اور چور ہے چور ہے نواز شریف چور ہے کے نعرے لگائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت ایوان کا ماحول مت خراب کرے گزشتہ روز حکومت نے بجٹ پر بحث کا آغاز اپوزیشن لیڈر سے نہ کراکر روایت توڑی اور بجٹ اجلاس کو ملیا میٹ کردیا۔ اس ماحول میں بجٹ اجلاس اپنی افادیت کھو دے گا حکومت اپنا رویہ درست کرے ورنہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پنتالیس منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کو حکومت کے آگے یرغمال بنتے شرم آتی ہے حکومت نے اپنا بجٹ ٹی وی پر نشر کریا لیکن اپوزیشن کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے گئے ہیں تاکہ ہمارا نکتہ نظر عوام کے سامنے آنان چاہئے۔ حکومت نے سپیکر کی پوزیشن پر سوالیہ نشان بنا لیا ہے۔ گزشتہ سالوں کی نسبت ہمارا خطاب ٹی وی پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

سپیکر یرغمال بنایا گیا ہے۔ کل روایت سے ہٹ کر سرکاری بنچوں سے بجٹ پر بحث کا آغاز کرلیا گیا یہ سپیکر کا فیصلہ نہیں تھا یہ وزیراعظم ہائوس کے گریڈ اکیس کے افر اور بیوروکریٹ کا فیصلہ تھا۔ کل اجلاس ملتوی کرکے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے لئے کوئی راستہ نکل آیا سپیکر کو پرچی ملی اور اجلاس ملتوی کرنے کے بجائے سرکاری ارکان سے اجلاس کرایا جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ روزہ سے ہوں مجھے پرچی نہیں ملی لیکن جس پر خورشید شاہ نے کہا ہ پھر آپ کو انکھوں کے اشاروں سے سمجھایا گیا۔

غیر جمہوری اقدامات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں پہلی دفعہ روایت توڑی ہے اس بجٹ کو کون مانے گا یہ آمریت ہے تحمل کا مطاہرہ کیوں نہیں کیا یہ اچھا پیغام نہیں دیا۔طاقت کے بل پر آپ سب کچھ کرلیں گے تو پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق کے مقابلے میں آپ کے پاس طاقت نہیں ہے۔ شہباز شریف لاہور آیا 250 لوگوں میں سے دو سو پی پی پی کے لوگ جیل میں گئے ن لیگ کے پچیس بھی نہیں تھے۔

حکومت نے پارلیمنٹ کے تقدس کو پاش پاش کیا ہے۔ پی پی پی جمہوری جماعت ہے تحریک انصاف کے رکان کے استعفے منظور کرانے سے ہم نے روکا تھا اگر استعفے ہوجاتے تو یہ والا ماحول نہ ہوتا کل اگر میرا نکتہ نظر سامنے آجاتا تو قیامت نہیں ٹوٹتی۔ وہ دن کہاں سے لائوں جو کہا تم کو دیکھائوں وہ دن بھی تھے جب مجھے 2013 میں گلہ لگایا جاتا تا ہاتھ پائوں چومے جاتے تھے جمہوری روایتوں کو توڑنا حکومت کا حق نہیں ہے۔

افسوس ہے کہ سپیکر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر پی ٹی وی پر ہماری تقریر براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی گئی تو ہم بجٹ پر تقریر کریں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ میں نے اپنا پیغام حکومت کو پہنچایا تھا اب فیصلہ ان کی مرضی ہے قائد حزب اختلاف سے درخواست ہے آپ اپنی تقریر شروع کریں۔ چیئرمین سینٹ نے حکم دیا تو دس منٹ میں حکومت نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر نشر کرنا شروع کی۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام ریکارڈ یکھا ہے 2015 کے علاوہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ سید خورشید شاہ نے جمہوریت کے مضبوطی کے لئے تاریخی کردار ادا کیا دھرنے کے دوران ان کا کردار بحیثیت پارٹی اور اپوزیشن لیڈر تاریخی کردار تھا لیکن کچھ عرصہ سے ان کے سوچ میں تبدیلی آرہی ہے پہلے یہ نظام کو آگے بڑھانے کی بات کرتے تھے ۔

وزیر خزانہ کی تقریر ہمیشہ ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کبھی بھی براہ راست ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتی۔ آج یہ اپنا پرانا کردار بھول گئے ہیں۔ اپنے کردار کو مت بھولیں اور اپنے مثبت کردار کو جاری رکھیں۔ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان شیریں مزادی اور دیگر نے شور کیا اور جملے بازی کی۔ اس سے ہم کیا سمجھیں کہ اس بائیکاٹ کے پیچھے کوئی اور مقاصد ہیں۔

اپوزیشن کو اتنا بڑا وقت کبھی بھی نہیں دیا گیا جتنا اب دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب ٹریپ نہ ہوں کسی شرارت کا حص نہ بنیں آج شاہ صاحب کی جماعت ان لوگوںکے پیچے مت چلے جو پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ان کا لیڈر بجٹ اجلاس میں اگر بیٹھنا پسند نہیں کرتا کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں عمران خان بادشاہ کا رویہ ہے اس کا پارلیمنٹ اور جمہوریت کے لئے کیا کردار ہے جس پر پاکستان تحرک انصاف کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور گو نواز گو کے نعرے لگائے رانا تنویر حسین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنا اچھا کردار ادا کرے اور اب وہ کردار بہت خراب کررہی ہے ان کے ساتھ مت چلیں جو پارلیمنٹ کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

تحری انصاف کے ارکان نے نعرے لگانے شروع کئے گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نادان دوست دانا دشمن سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے رانا تنویر حسین نے کہا کہ خورشید شاہ ٹریپ ہوگئے ہیں کیا شاہ صاحب کی یہ عمر ہے ٹریپ ہونے کی یہ وہی قائد حزب اختلاف ہیں جس کی تعریف کرتے آپ تھکتے نہیں تھے ان کے ہاتھ چومتے تھے ان کی شکل میں آپ کو جمہوری قدریں دیکھائی دیتی تھیں آج ان کے چہرے کے پیچھے کوئی محرکات نہیں ہیں۔

آپ جمہوریت کے علمبردار ہیں اور باقی لوگ ایسے نہیں ہیں اگر سوچ بدلیں گے تو معاملات آگے بڑھیں گے۔ حکومت نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرادیا گزشتہ روز حکومت نے روایت توڑ کر آپ اپنے بجٹ کو ملیا میٹ کردیا اس سے بجٹ کی افادیت کھو دیں گے آپ کا رویہ اچھا رہا ہے آپ کے منصب کا اپوزیشن احترام کرتی ہے حکومت جب مشکل میں پھنستی ہے تو سپیکر کو سہارا بنایا جاتا ہے جس طرح ملٹری کورٹس کی بحالی کے دوران کرایا۔

سپیکر کی جانبداری کو کمپرومائز کرنے سے حکومت کی اپنی پوزیشن کمزور ہوتی ہے حکومت نے جمہوریت کی روایات کی خلاف ورزی کی ہے۔ حکومت فیصلے پر نظر ثانی کرے سیاسی نقصان حکومت نے کیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ کا حل نکلے مسئلہ حل نہ ہو تو بجٹ اجلاس بے معنی ہوجائے گا۔ حکومت اپنا رویہ درت کرے ورنہ حکومت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ یکم جون کو مشترکہ اجلاس چلانا ہے کہ نہیں اور صدر کا خطاب کرانا ہے کہ نہیں۔

اس کا انحصار حکومت کے رویہ پر ہے حکومت ہمارا نکتہ نظر دبا نہیں سکتی۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا اس لئے واک آئوٹ کرتے ہیں جس پر اپوزیشن نے واک آئوٹ کردیا۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اپوزیشن وہ روایت ڈالے جو کل برداشت کرسکیں ہم اپنے لیڈر کے خلاف بات نہیں سنیں گے۔ خورشید شاہ کا ایک نکتہ پر اٹک جانا سمجھ سے بالاتر ہے مجھے دو چیزیں نظر آتی ہیں حکومت نے بہترین بجٹ پیش کیا اپوزیشن لیڈر کو اس میں کچھ نظر نہیں آرہا ہے اور نہ وہ تیاری کرسکے ہیں ان کو ذاتی تشہیر کی ضرورت کیوں پڑ گئی ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات