کابل کے ڈپلومیٹک ایریا میں بم دھماکہ ، بچوں ،خواتین اورر2میڈیا ورکرز سمیت 90 افراد ہلاک ،4صحافیوں اور سفارتخانوں کے عملے کے ارکان سمیت380 زخمی ،بیشتر کی حالت تشویشناک ،ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ

داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ، طالبان کا حملے سے اظہار لاتعلقی حملہ دھماکہ خیزمواد سے بھرے واٹر ٹینکر کے ذریعے کیا گیا،سیکورٹی ایجنسیاں دھماکے سے فرانسیسی ، جرمن اور پاکستانی سفارت خانے کوبھی نقصان پہنچا ،متعدد گاڑیاں تباہ، قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ،دھماکے کی جگہ سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے گئے ، افغان فورسزنے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ْافغان صدر ،چیف ایگزیکٹو ،حامد کرزئی ،پاکستان ،بھارت ،ایران ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،روس ،اقوام متحدہ اور نیٹو سمیت مختلف ممالک کی دھماکے کی شدید مذمت ،جانی نقصان پر افسوس ، افغان حکومت کے ساتھ اظہار تعزیت دھماکے میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی نقصان پہنچا عملے کے بعض افراد معمولی زخمی بھی ہوئے ،دکھ کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ ہیں،پاکستان چونکہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اس لیے وہ اس درد سمجھ سکتا ہے،ترجمان دفتر خارجہ پاکستانی حکومت کابل حملے کی مذمت کرتی ہے ،ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے ،نوازشریف ہماری کی تحریک اس حملے میں ملوث نہیں ، ایسے خونریز حملوں کی مذمت کرتے ہیں جن میں شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے،طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پاکستانی حکومت کابل حملے کی مذمت کرتی ہے ،ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے،نوازشریف پاکستانی عوام دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغان عوام اور فورسزکے ساتھ کھڑے ہیں،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

بدھ 31 مئی 2017 18:15

کابل کے ڈپلومیٹک ایریا میں بم دھماکہ ، بچوں ،خواتین اورر2میڈیا ورکرز ..
کابل/اسلام آباد /نئی دہلی /واشنگٹن /نیویارک /پیرس/لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 مئی2017ء) افغانستان کے دارالحکومت کابل میںڈپلومیٹک ایریا میں ہونے والے خوفناک بم دھماکے میں بچوں ، خواتین اور2میڈیا ورکرز سمیت 90افراد ہلاک جبکہ 4صحافیوں اور پاکستان سمیت مختلف ممالک کے سفارتخانوں کے عملے کے اراکان سمیت 380سے زائد زخمی ہوگئے ، شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ طالبان نے حملے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی تحریک کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے،دھماکہ اتنا زور دار تھاکہ فرانسیسی اور جرمن سفارت خانوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ متعدد گاڑیاں بھی تبا ہ اور قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے،دھماکے کے فوری بعد افغان فورسز کی بڑی تعداد جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیاافغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی ،چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ،حامد کرزئی ،پاکستان ،بھارت ،ایران ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،روس ،اقوام متحدہ اور نیٹو سمیت مختلف ممالک نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس اور افغان حکومت کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے ۔

(جاری ہے)

بدھ کو افغان اور غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان دارالحکومت کابل کے علاقے وزیر اکبر خان کے زنباق اسکوائر میںڈپلومیٹک ایرایا کے قریب ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی ۔سیکورٹی ایجنسیوں اور افغان حکام کا کہنا ہے کہحملہ دھماکہ خیزمواد سے بھرے واٹر ٹینکر کے ذریعے کیا گیا۔دھماکے کی جگہ ، متعدد غیر ملکی سفارت خانے ، سرکاری دفاتر، اعلی حکومتی شخصیات کی رہائش گاہیںاورکابل صدارتی محل بھی قریب ہی واقع ہے۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ کار بم دھماکا صبح 8 بجکر 25 منٹ پر ہوا۔وزارت صحت کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 90افراد ہلاک اور 380زخمی ہوئے ہیں۔دھماکے کے نتیجے میں بی بی سی کا ڈرائیور محمد نذیر اور افغان ٹی وی طلوع نیوز کا ایک ورکر بھی ہلاک اور4صحافی بھی زخمی ہوئے ہیں۔دھماکے کے نتیجے میں فرانسیسی اور جرمن سفارت خانوں کوشدید نقصان پہنچا ،متعدد گاڑیاں بھی تباہ اور قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

دھماکے کی جگہ سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے گئے۔زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا جہاں بیشتر افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے جس سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ وزارت خارجہ نے زخمیوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر عوام سے خون کے عطیات دینے کی درخواست کی ہے ،تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ۔

دھماکے کے فوری بعد افغان فورسز کی بڑی تعداد جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔حکام کا کہنا ہے کہ علاقے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہاں لوگوں کی بڑی تعداد دفاتر کو جارہی تھی۔کابل پولیس کے ترجمان بصیر مجاہد کے مطابق دھماکا جرمن سفارت خانے کے قریب ہوا جس کے اطراف میں دیگر سرکاری اداروں کے دفاتر اور دیگر کمپانڈ قائم ہیں۔

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی ،چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ،حامد کرزئی ،پاکستان ،بھارت ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،روس ،اقوام متحدہ اور نیٹو سمیت مختلف ممالک نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس اور افغان حکومت کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے ۔دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ کہا کہ خدا کے فضل سے دھماکے میں ہندوستانی سفارتی عملہ محفوظ رہا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے جاری بیان میں کابل دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں ہونے والے دھماکے میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ دھماکے میں پاکستانی سفارتکاروں کی رہائشگاہوں کو بھی نقصان پہنچا اور عملے کے بعض ارکان معمولی زخمی بھی ہوئے ۔ان کا کہنا تھا کہ دکھ کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چونکہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اس لیے وہ اس درد سمجھ سکتا ہے۔وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کابل حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا۔نوازشریف نے کہاکہ پاکستانی حکومت کابل حملے کی مذمت کرتی ہے ،ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغان عوام اور فورسزکے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے دھماکے میں پاکستانی سفارتخانے اور دیگر سفارتخانوں کو نقصان پہنچنے پر اظہار افسو س کیا اور حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ادھر روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ماریہ زاکھا روا،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولن برگ نے بھی دھماکے کی شدید مذمت کی ہے ۔

جاپانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسکے سفارتخانے کے 2اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔دوسری جانب شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جبکہ طالبان نے حملے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی تحریک کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہاکہ ایسے خونریز حملوں کی مذمت کرتے ہیں جن میں شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں شہری ہلاکتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔واضح رہے کہ 28 مئی 2017 کو ماہ رمضان المبارک کے پہلے ہی روز افغانستان میں صوبائی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر کیے جانے والے خودکش حملے میں 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے قبل 23 مئی کو قندھار میں فوجی بیس کیمپ پر مسلح شدت پسندوں کے حملے میں بھی 10 افغان فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

جبکہ اس سے ایک دن پہلے 21 مئی کو افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں طالبان جنگجوں نے مختلف سیکیورٹی چیک پوسٹس پر بیک وقت حملہ کرتے ہوئے 20 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔

گزشتہ ماہ شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں 135 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کو ایک اور مشکل سال کا سامنا کرنا پڑے گا۔واضح رہے کہ حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے وائٹ ہاس سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔

یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوا تھا تاہم یہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے امریکی اور نیٹو کی کچھ فورسز کو تعینات رکھا گیا۔اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔