پیپلزپارٹی کا اسلامی فوجی اتحاد کی کسی مسلم ملک کے خلاف ممکنہ کاروائی کے پیش نظر جنرل (ر) راحیل شریف کو واپس بلانے کا مطالبہ ،فوجی اتحاد کے دائرہ کار باری5 اہم سوالات اٹھا دیے، راحیل شریف کو سعودی عرب جانے کی اجازت دینے کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جائے ، پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کاایوان بالا میںتوجہ دلائو نوٹس پراظہارخیال

جمعرات 1 جون 2017 20:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 جون2017ء) اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اسلامی ملٹری الائنس کی کسی اسلامی ملک کے خلاف ممکنہ کاروائی کے پیش نظر اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کو پاکستان بلانے کا مطالبہ کردیا ۔ فوجی اتحاد کے دائرہ کار کے بارے میں پانچ اہم سوالات اٹھا دیے گئے ،کیا اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی اوآر کو حتمی شکل دی جا چکی ہی اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو وہ شرائط کیا ہیں اور انہیں 11اپریل کو کئے ہوئے وعدے کے مطابق سینیٹ کے سامنے کیوں نہیں رکھا گیا اور چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے مطابق پارلیمانی منظوری سے قبل سینیٹ اور ومی اسمبلی کے سامنے کیوں نہیں پیش کیا گیا اگر ان ٹی اوآر کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے تو جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت کیوں دی گئی اب اتحاد کے اصل مقصد کے سامنے آنے کے بعد کیا حکومت جنرل راحیل شریف کو واپس بلانے پر غور کرے گی جنرل راحیل شریف کی اس فوجی اتحاد کے سربراہ کی تقرری کی شرائط کیا ہیں اور کیا ضروری ہو تو انہیں واپس بلایا جا سکتا ہی یہ مطالبہ اور سوالات جمعرات کو سینیٹ اجلاس میں کئے گئے پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ راحیل شریف کو سعودی عرب جانے کی اجازت دینے کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جائے ۔

(جاری ہے)

’’ریاض امریکہ اسلامک ممالک کانفرنس‘‘کے نتیجے میں اگر یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو قوم کو آگاہ کیا جائے کہ کیا پاکستان اس پوزیشن میں ہوگا کہ راحیل شریف کو واپس بلایا جائے ۔ وزارت خارجہ اس بات سے بھی آگاہ کرے کہ الائنس کے ٹی اوآرز کے حوالے سے صورتحال بدل گئی تو کیا پاکستان ممکنہ آپیشنز پر غور کررہا ہے اور اگر راحیل شریف واپس نہ آئے تو کیا یہ پاکستان کے لئے دھچکا نہیں ہوگا ، کیا راحیل شریف کو واپس بلایا جا سکتا ہے بلکہ واپس بلایاجانا چاہیے کیونکہ کسی اسلامی ملک کے خلاف کاروائی کے اشارے مل رہے ہیں ۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں توجہ دلائو نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد کی حقیقت اور ان کے دعووں کے درمیان تضادات واضع ہوگئے ہیںپہلے پارلیمنٹ کو یقین دلایا گیا تھا کہ یہ اتحاد صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے ہے اور پاکستان مشرق وسطیٰ کے ممالک میںکسی ملک کے ذاتی تنازعات میں کسی بھی ملک کی طرفداری نہیں کرے گا۔

انہوں نے سینیٹ کے 11اپریل کے ریکارڈ کو پڑھا جس میں یہ تحریر تھا کہ وزیر دفاع نے ایوان کو بتایا تھا کہ مئی کے مہینے میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں اس فوجی اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس کو حتمی شکل دی جائے گی۔ انہوںنے چیئرمین سینیٹ کی رولنگ بھی پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے کہا کہ جب یہ ٹی اوآر حتمی طور پر تیار کی جائیں گی تو کابینہ کی توثیق سے قبل اسے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے تاکہ دونوںایوان اس پر تفصیلی بحث کر سکیں۔

اس کے بعد ایسی رپورٹیں سامنے آئیںجن میں سعودی حکام کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ یہ فوجی اتحاد صرف دہشتگردی کے خلاف نہیں بلکہ کسی بھی رکن ریاست کے کہنے پر ایسے عسکریت پسندوں اور باغیوں کے خلاف بھی کارروائی کر سکتا ہے جس سے کسی بھی رکن کو خطرا درپیش ہو۔ اس کے بعد ریاض میں اعلیٰ اسلامک - امریکی سمٹ منعقد ہوئی جس میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک سنہری تلوار کے ساتھ رقص کیا اور اس اتحاد کی بندوقوں کا رخ عسکریت پسندی کی بجائے ایران کی جانب کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سمٹ کے ذریعے ایران کو دہشتگردی کا گڑھ قرار دے کر اس میں ایران کو اسلامی دنیا سے کاٹ کر تنہا کر دیا۔ اس سمٹ کے بعد پاکستان کے پڑوسی ایران اور پاکستان کا روایتی اتحادی دوست سعودی عرب ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ اس سے پاکستان کی سلامتی کو ایک نیا خطرہ لاحق ہوگیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے متذکرہ پانچ سوالات کئے اور کہا کہ ان کے واضح جوابات دئیے جائیں۔ (اع)