قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بجٹ تقاریر براہ راست نشر نہ کرنے پر چوتھے روز بھی ڈیڈ لاک برقرار

اپوزیشن کے گو نواز گو کے نعرے،ایوان سے واک آئوٹ حکومت آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے‘ اداروں کے ساتھ حکومت کا ٹکرائو ملک کیلئے سود مند نہیں ہوگا‘آج آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، آئین کیساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، اداروں کو گالیاں دی جارہی ہیں، کسی نے جمہوریت کے لئے کبوتر بھی قربان نہیں کیا ہم نے قربانیاں دیں ہیں،اداروں کو ڈرانے اور دھمکانے کیلئے ہم نے قربانیاں نہیں دی تھیں،حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی کی کوشش نہ کرے‘ بجٹ صرف حکومت کا نہیں ہوتا اس کی منظوری میں اپوزیشن کی شمولیت ضروری ہے‘ حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن بجٹ کا حصہ نہ بنے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا نقطہ اعتراض پر اظہار خیال

جمعہ 2 جون 2017 15:11

قومی اسمبلی  میں  اپوزیشن کی بجٹ تقاریر  براہ راست نشر نہ کرنے پر  چوتھے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 جون2017ء) قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اپوزیشن کی تقاریر سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے کے معاملہ پر چوتھے روز بھی ڈیڈ لاک برقرار رہا‘ اپوزیشن نے گو نواز گو کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کیا‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کی برداشت کے تحت اسمبلی کو نہ چلائیں ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ مضبوط ہو اور جمہوری انداز میں فیصلے ہوں تاکہ ملک مضبوط ہو اور ترقی کرے‘ حکومت آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے‘ اداروں کے ساتھ حکومت کا ٹکرائو ملک کے لئے سود مند نہیں ہوگا‘ حکومت جمہوری کو کس طرح لے کر جارہی ہے‘ حکومت آئین سے راستے نکال کر اپنی مرضی کی قانون سازی کی کوشش نہ کرے‘ بجٹ صرف حکومت کا نہیں ہوتا اس کی منظوری میں اپوزیشن کی شمولیت ضروری ہے‘ حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن بجٹ کا حصہ نہ بنے‘ بجٹ اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے کا مطالب ہے کہ کسی کو بجٹ سے دلچسپی نہیں ہے‘ بجٹ عوام دوست نہیں ہے اور اس میں غریب اور عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت یں 48 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ آج ایک گھنٹہ اجلاس تاخیر سے شروع ہوا ہے بجٹ صرف حکومت کا ہی نہیں ہوتا اس میں اپوزیشن کی شمولیت ضروری ہے۔ اس سال کوشش کی گئی کہ اپوزیشن بجٹ کا حصہ نہ بنے یہ بجٹ عوام دوست نہیں ہے۔ غریب اور کسانوں سمیت کسی کو ریلیف نہیں دیا گیا۔

اجلاس کے حوالے سے تاخیر کا حکومت اخلاقی جواز پیش نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن کا عوامی اسمبلی لگانے کا مقصد عوام تک اپنی آواز پہنچانا ہے۔ چیئرمین سینٹ پارٹی سے ہدایت پر ایوان ہی چلاتا لیکن اسمبلی حکومت کی ہدایات پر چلتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ طاقتور ہو اور فیصلے یہاں سے ہوں۔ جمہوری اداروں سے فیصلے ہوں تاکہ ملک مضبوط ہو اور ترقی کرے آج آئین اور قانون دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے یہ ملک کے لئے صحت مند سیاست نہیں ہے۔ آئین سے راستے نکالے جارہے ہیں اور مرضی کی قانون سازی کی جارہی ہے ایسی سوچ سسٹم کے لئے خطرہ ہے۔ آج اداروں کو گالیاں دی جارہی ہیں‘ اداروں کا ٹکرائو ملک کے لیء اچھا نہیں ہے‘ ملک کو بیرونی چیلنج درپیش ہیں۔ اداروں سے ٹکرائو کیا جارہا ہے حکمران کبھی بھی علط نہیں ہوتا کبھی کسی نے نہیں کہا کہ شیر کے منہ میں بدبو ہے ایک سینیٹر نے یہ بیانات کیوں دیئے اس کو ایسی ہمت کیوں ہوئی پہلے ایک سینیٹر کے خلاف ایکشن نہیں لیا اب دوسرے سینیٹر نے بیان دیا کہ حساب لینے والوں کے بچوں کا ملک میں رہنا تنگ کردیں گے۔

آج پکراتے بھی خود ہیں اور چھوڑتے بھی خود ہیں بعد میں احسان جتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فکر نہ کرو چھڑا دوںگا اور دو سال بعد سندھ کا کوئی گورنر بنوا دوں گا۔ وزیراعظم ہائوس کے ترجمان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ جج کے ریمارکس کی مذمت کرتے ہیں۔ جمہوریت کے لئے اس لئے لاشیں نہیں اٹھائیں اور قربانیاں نہیں دیں۔ کسی نے جمہوریت کے لئے کبوتر بھی قربان نہیں کیا ہم نے قربانیاں دیںاور لاشیں اٹھائی ہیں۔

آج جمہوریت کو کہاں لیکر جارہے ہیں۔ آپ ارکان سے تو کوکیسے ایوان میں لاتے ہیں ارکان خود کہتے ہیں کہ سات تاریخ تک دبائو برقرار رکھے دو سو ارب آگئے ہیں جو ان کو دیئے جائیں گے یہ پری پول دھاندلی ہے۔ سندھ اسمبلی سالہاسال لائیو چلتی ہے ساری اسمبلیوں کی کوریج براہ راست نشر کی جانی چاہئے۔ سینٹ جب چاہے فیڈ لے سکتی ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ہماری تقریر بھی لائیو چلائیں اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونا اس کا ثبوت ہے کہ بجٹ کسی نے قبول نہیں کیا سپیکر بے بس ہیں آپ کا احترام کرتے ہیں اس پر اپوزیشن نے واک آئوٹ کردیا سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ کوشش کی تھی کہ مذاکرات سے معاملے حل ہوسکیں لیکن یہ نہیں ہوا اپوزیشن ارکان گو نواز کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔