نوازشریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جیل بھی بھیجنا چاہتے تھے، اس کے گواہ سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب ہیں، چودھری شجاعت حسین

مجھے اور اس وقت کے وزیرقانون خالد انور کو چیف جسٹس کے پاس بھیجا کہ وہ پریس کانفرنس نہ کریں جنہوں نے اپنے بیڈ روم میں ریکارڈنگ ڈیوائس دکھائی سپریم کورٹ کے بعد بہاولپور ہائیکورٹ بنچ پر حملہ کروایا کہ انہوں نے نوازشریف کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیا، نہال ہاشمی سے پہلے ارکان اسمبلی طارق عزیز، میاں منیر، سمیع اللہ افضل گل قربانی کے بکرے بنائے گئے

پیر 5 جون 2017 17:59

نوازشریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جیل بھی بھیجنا چاہتے تھے، اس کے گواہ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 جون2017ء) پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو وزیراعظم نوازشریف خواہ ایک رات کیلئے ہی سہی جیل بھیجنا چاہتے تھے، ان کے بیڈ رومز فون ٹیپ کرنے کے شاہد اس وقت کے وزیرقانون اور ممتاز قانون دان خالد انور ایڈووکیٹ بھی ہیں۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی پریس کانفرنس میں حکمرانوں کی قربانی کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ یہ چھوٹی عید سے قبل ہی ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے ساتھ جو سلوک سعودی عرب میں ہوا اس کے بعد انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے تھا، اگر کانفرنس میں تقریر کا موقع نہیں ملا تھا تو اپنے ہوٹل میں پریس کانفرنس کر سکتے تھے اس سے انہیں شاہ سلمان یا صدر ٹرمپ نے نہیں روکا تھا۔

(جاری ہے)

چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ شریف فیملی خاص طور پر نوازشریف اور شہبازشریف دونوں بھائی ذہنی طور پر ہمیشہ عدالتوں کے خلاف کام کرتے رہے ہیں جن میں غیراخلاقی حرکات بھی شامل ہیں جس کی مثال میں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ کے بیڈرومز کے فون ٹیپ اور نجی گفتگو بھی ریکارڈ کرنے کی دی تھی جو کہ ہر لحاظ سے غیر اخلاقی فعل ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف اس اطلاع پر پریشان ہو گئے تھے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنے بیڈ رومز کے ٹیپ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور وہ ثبوت اکٹھے کر کے اب پریس کانفرنس کرنے والے ہیں، ان کے کہنے پر میں اور خالد انور ایڈووکیٹ سجاد علی شاہ کو منانے ان کے گھر گئے تو وہ راضی ہو گئے لیکن انہوں نے ہمیں اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے نیچے لگی ریکارڈنگ ڈیوائس دکھائی۔

انہوں نے کہا کہ میری بات کا سب سے بڑا ثبوت خالد انور ایڈووکیٹ ہیں جو اعلیٰ ظرف شخصیت ہیں، میں چیلنج کرتا ہوں کہ ملک کے ایک لاکھ سے زائد وکلا میں سے ایک بھی credible (معتبر) وکیل کہہ دے کہ خالد انور کے سامنے اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تو میں اپنی غلطی اور ہر سزا تسلیم کر لوں گا، میں اس سے زیادہ آسان ثبوت کیا پیش کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور نوازشریف کے کئی ایک معاملات میں کشیدگی بڑھنے پر نوازشریف نے شہبازشریف کے ذریعے سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیا جس پر ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی اور آج بھی وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے، حملہ آوروں کو پنجاب ہائوس جا کر کھانا کھانے کے اعلانات شاہراہ دستور پر میں نے خود سنے، اپنی پارٹی کے لوگوں کو بکرا بنانے کا رواج بھی اس وقت ڈالا گیا جو آج نہال ہاشمی کی شکل میں سامنے آیا ہے اس وقت ارکان قومی اسمبلی میاں منیر اور طارق عزیز کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ نوازشریف نے اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان کو کہا کہ کوئی ایسا طریقہ بنائیں کہ چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی میں بلا کر سرزنش کی جائے، وزیراعظم کے چند حواریوں نے ان کے اس فیصلے کی تائید کی لیکن گوہر ایوب خان نے کہا کہ قواعد و ضوابط کے تحت کمیٹی کو اتنا بڑا قدم اٹھانے کا اختیار نہیں اور خبردار کیا کہ اس کا سخت ردعمل آ سکتا ہے، آپ ایسی غلطی نہ کریں اس کے بعد وزیراعظم نے گوہر ایوب کو اپنے ساتھ وزیراعظم ہائوس چلنے کیلئے کہا، راستے میں بقول گوہر ایوب نوازشریف نے ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ چیف جسٹس کو کم از کم ایک رات کیلئے جیل بھجوایا جائے اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ خدا کیلئے ایسی باتیں نہ سوچیں جن سے پورا نظام زمین بوس ہو جائے لیکن نوازشریف باز نہ آئے اور سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیا۔

چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ اسی طرح 1997ء میں ہائیکورٹ کے بہاولپور بنچ پر یہ کہہ کر حملہ کرایا کہ جسٹس بخاری نے نوازشریف کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیا، ان کی عدالت پر حملہ کر کے انہیں بے عزت کیا جائے جس پر ارکان پنجاب اسمبلی افضل گل اور چودھری سمیع اللہ پر ہائیکورٹ نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے پانچ سال کیلئے نااہل قرار دے دیا۔ چودھری شجاعت حسین نے حسین نواز کے جیلیں کاٹنے کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے کون سی جیل کاٹی ہے جب انہوں نے چلنا شروع کیا ہو گا تب کا علم نہیں باقی سب ہمیں معلوم ہے، یہ مرسڈیز میں بیٹھتے ہیں تب بھی کہتے ہیں بڑی مشکل ہے۔

انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ حکمرانوں کو اس حالت میں لانے میں عمران خان کا بڑا ہاتھ ہے، پھر سراج الحق، شیخ رشید اور میڈیا ہے۔ حسین نواز کی حالیہ تصویر کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ اس میں ایسا کیا ہے کہ ان پر ظلم ہو گیا، وہ کرسی پر بیٹھے ہیں، سائیڈ ٹیبل پر لیٹرپیڈ اور قلم کے علاوہ کیا ہے۔ -17/--80