پاک فوج نے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں امن قائم کر کے شاندار کامیابی حاصل کی ہے، پاکستان افغان پناہ گزینوں کا بوجھ آج تک برداشت کر رہا ہے، بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے، افغان سرحد پر باڑ لگانا مسئلہ کا حل نہیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی

اراکین سینیٹ کا چمن سرحد پر مردم شماری کی ٹیم پر افغان سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے واقعہ پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 6 جون 2017 15:28

پاک فوج نے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں امن قائم کر کے شاندار کامیابی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 جون2017ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ پاک فوج نے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں امن قائم کر کے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں کا بوجھ آج تک برداشت کر رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ افغان سرحد پر باڑ لگانا مسئلہ کا حل نہیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

منگل کو ایوان بالا میں چمن سرحد پر مردم شماری کی ٹیم پر افغان سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے واقعہ پر تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ افغانستان اور بھارت نے پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ افغانستان کی تباہ حالی میں ہمارا بھی کردار ہے۔

(جاری ہے)

افغانستان کے ساتھ حالات خراب کر کے ہم اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

حکومت بتائے ہمارا مستقبل کیا ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کر کے ہمیں کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوا۔ ایساف اور نیٹو فورسز افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکیں لیکن ہماری فوج اور ایئر فورس نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ دنیا کو بتا دیا جائے کہ ہم کسی حملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پاکستان کے چار میں سے تین ہمسایوں سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں۔

افغان فوجی ہمارے سپاہیوں کو شہید کریں، یہ ناقابل قبول ہے۔ اپنی علاقائی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ چین کے سوا سب کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ مردم شماری ٹیم کی اطلاع کے باوجود افغانستان کی فورسز نے حملہ کیا۔ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے بہت مشکلات برداشت کیں۔

بھارت افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ اب رمضان سے ایک روز قبل دوبارہ چمن سرحد کھول دی گئی ہے۔ ہماری افواج نے اپنا کام کرلیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا مسئلہ سیاسی ہے۔ وہاں کوئی نمائندہ حکومت نہیں ہے نہ ان کی رٹ ہے۔ ان کے آپس میں بہت ایشوز ہیں۔ ہم چاہتے ہیں افغانستان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہوں لیکن بہت سی چیزیں ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

خطے میں کچھ مخصوص مسائل ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد الله نے کہا کہ چمن میں 24 میں سے چار گھنٹے بجلی آتی ہے۔ ہزاروں لوگ روزانہ اس سرحد سے آتے جاتے ہیں۔ چمن کی آبادی کا انحصار سرحد پر ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی درست سمت کا تعین کرنا چاہئے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ چمن سرحد بند کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مسئلہ کی جڑ کچھ اور ہے۔ امریکہ کی اصل ذمہ داری ہے۔

مہاجرین کا پاکستان سے زیادہ اچھا میزبان کوئی اور نہیں رہا۔ ہم مثالی میزبان رہے ہیں۔ ہماری فورسز نے امریکی اور ایساف فورسز سے زیادہ بہتر کام کیا ہے۔ امریکہ خود افغانستان میں ناکام ہوا ہے۔ انہوں نے حکمت یار کو قبول کرلیا۔ طالبان کو بھی کر رہے ہیں، ہم پر دبائو ڈالتے ہیں، ساڑھے سات سو ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کر چکے ہیں۔ اب پاکستان پر الزام لگا رہے ہیں۔

سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کا انتظام بہتر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو دوبارہ مرتب کرنا ہوگا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، سرحد پر باڑ لگانا مسئلے کا حل نہیں۔ مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ وسط ایشیائی ممالک نے ایسا کیا ہے، معاشی تعلقات امن کی ضمانت ہوتے ہیں۔

مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر کام کیا جائے۔ سینیٹر ولیمز نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگانا آسان نہیں، افغانستان میں ایک قوت سرگرم ہے، اس نے پاکستان کی طرف کئی قونصلیٹ بنائے ہیں، ان کے مقاصد پہچاننے ہوں گے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ افغانستان ایک مائنڈ سیٹ کے ساتھ چل رہا ہے۔ کون سا ایشو افغانستان اور ہمارے درمیان ہے۔ امریکہ نے خطے میں عدم استحکام کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ پاکستان سعودی عرب اور قطر کو بٹھائے اور ان کے مذاکرات کرائے۔ مشیر خارجہ (آج) بدھ کو تحریک التواء پر بحث سمیٹیں گے۔