اراکین سینٹ کا وزیر اعظم سے خطے اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا مطالبہ

طاقت کے استعمال سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ پاکستان کو سعودی عرب‘ ایران کو قریب لانے اور قطر کے ساتھ اختلافات ختم کروانے کیلئے اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے ‘ امریکہ امن نہیں عالم اسلام میں جنگ کو فروغ دینا چاہتا ہے، اراکین سینٹ اعظم سواتی‘ نعمان وزیر‘ سراج الحق‘ شیری رحمن اور کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی چمن سرحد پر مردم شماری کی ٹیم پر افغان فورسز کی فائرنگ میں شہریوں اور مسلح افواج کی قیمتی جانوںکے ضیاع پر بحث

منگل 6 جون 2017 15:59

اراکین سینٹ کا وزیر اعظم سے خطے اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر آل پارٹیز ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 جون2017ء) اراکین سینٹ نے سانحہ چمن پر بحث کے دوران وزیر اعظم سے خطے اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ طاقت کے استعمال سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ پاسکتان کو سعودی عرب‘ ایران کو قریب لانے اور قطر کے ساتھ اختلافات ختم کروانے کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے ‘ امریکہ امن نہیں چاہتا وہ عالم اسلام میں جنگ کو فروغ دینا چاہتا ہے۔

منگل کو ایوان میں اراکین سینٹ اعظم سواتی‘ نعمان وزیر‘ سراج الحق‘ شیری رحمن اور کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی چمن سرحد پر مردم شماری کی ٹیم پر افغان فورسز کی فائرنگ میں شہریوں اور مسلح افواج کی قیمتی اجنوں کے ضیاع پر تحریک التواء کے تحت بحث کی گئی۔

(جاری ہے)

طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے ملٹری کارروائی کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ چمن پر افغان فورسز کے حملے کے بعد صورتحال معمول پر آرہی ہے گیٹ کھول دیا گیا ہے چیک پوسٹ بن گئی ہے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں غیر متوقع فوجی تصادم ہوا ہے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے کابل میں کوئی نمائندہ حکومت نہیں ہے حکومتی جماعتوں نے کابل میں سکیورٹی اجلاس کا بائیکاٹ یا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بھی ہے جب کہ بھارت ذہنی طور پر پاکستان کو تسلیم نہیں کرلیتا وہ خلاف ورزیاں کرتا رہے گا افغانستان میدان جنگ بنا رہے گا خطے میں بڑی طاقتوں کے سٹریٹیجک مفادات ہیں امریکہ چین اور ایران پر نظر رکھنا چاہتا ہے بھارت تھانیداری چاہتا ہے بہت سی چیزیں ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں یہ خطے اور عالمی سیاست کا حصہ ہیں۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر حافظ حمد الله نے کہا کہ چمن میں گیارہ افراد بشمول ایک حاملہ خاتون شہید ہوگئے میں نے سانحہ چمن پر مذمتی قرارداد دی تھی مگر سینٹ سیکرٹریٹ کی میرے ساتھ زیادہ مہربانی میں نے یہ آج تک قرارداد ایجنڈے پر نہ آسکی مذمت کرتا ہوں چمن میں صرف چار گھنٹے کی بجلی دی جاتی ہے معاشی اور روزگار کے وسائل نہیں ہیں باب دوستی پر ایک ایک کی تلاشی لی جاتی ہے ہزاروں لوگوں کی معیشت سرحد کے ساتھ وابستہ ہے ایک طرف افغانستان ان پر گولے برساتے ہیں ہماری فورسز بھی گولے داغتے ہیں اپنی فورسز بے گناہ نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہیں اس کا علاج کیا ہے ایک طرف لوگوں کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں دوسری طرف ان پر گیٹ بند کرکے ان پر روزگار کا دروازہ بند کردیتے ہیں دنیا میں جہاں دہشت گردی کا واقعہ ہو چمن میں باب دوستی کو بند کردیا جاتا ہے۔

1998 میں چمن کے ان علاقوں میں مردم شماری ہوئی وہاں طالبان کی خدمت تھی سرحد پر خاموشی تھی نائن الیون کے بعد چمن پر 1980 کی دہائی کی صورتحال کا سامنا ہے یعنی صورتحال خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کا تقاضا کررہی ہے۔ فائرنگ کے واقعات پر پاک افغان سرحد کو بند نہ کیا جائے چمن والوں پر رحم کریں کیا بھارت افغانستان کے خفیہ ادارے اس سرحد سے داخل ہوتے ہیں لاہور میں واقعہ ہوتا ہے اور پاک افغان سرحد بند کردی جاتی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ چمن پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی مسئلہ کی جڑ دیکھیں امریکہ کی غلط پالیسی کے گناہ میں ہم بھی شریک رہے۔ پاکستان کے علاوہ کوئی افغان مہاجرین کا اتنا اچھا میزبان نہیں رہا۔ پاکستان نے فلسطینیوں اور بوسنیا کی بھی مدد کی ہے افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی تضادات کا شکار ہے دہرا معیار ہے اپنی نالائقی کا ملبہ پاکستان پر گراتا ہے گلبدین حکمت یار کو قومی دھارے میں شامل کیا جارہا ہے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے بات کرنے میں ان کا کونسا نکاح ٹوٹتا ہے اور کیا نئی کارجہ پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے مزید پانچ ہزار ٹروپس بھجوائے جارہے ہیں امریکہ افغانستان میں 750 ارب ڈالر جھونک چکا ہے روس کے خلاف جہاد نہیں بلکہ سی آئی اے کا آپریشن تھا ڈالروں کی بارش ہوئی بھارتی عزائم کو سمجھنا ہوگا وہ افغان سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے۔

افغانستان پر ہماری اجتماعی ناکامی ہوئی ہے غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پارلیمانی رابطے خوش آئند ہیں چیئرمین سینٹ کو بھی وفد کے ساتھ کابل جانا چاہئے افغان چیف ایگزیکٹو عبدالله عبدالله کا پاکستان کی سرزممین پر خیر مقدم کریں ان سے بات کریں افغانستان میں کسی اورکا اثر و رسوخ ہماری کمزوری ہے۔ ماضی کی غلطیاں نہ کریں نئی غلطیاں کریں۔ افغان امن کے بغیر خطے میں فساد رہے گا۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ خارجہ پالیسی اور سرحدی انتظام کے معاملات ہیں پاک ایران سرحد پر بھی بے گناہ لوگ شہید ہورہے ہیں مشرقی سرحد پر بھی بھارتی فائرنگ کے واقعات ہورہے ہیں تینوں سرحدوں پر کشیدگی کی صورتحال کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ ایران کے خلاف 41ممالک کا اتحاد بن گیا ہے ‘ پارلیمنٹ کو اس کے برعکس یقین دہانی کروائی گئی تھی ہماری خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ سعودی ریاض کانفرنس میں امریکی صدر نے پاکستان کا نام ہی نہیں لیا۔

ہم ہر ملک کی جنگ میں بلاوجہ کود پڑتے ہیں۔ افغانستان پاکستان میں مداخلت کرنے والے شیطانوں کو اپنی سرزمین پر پناہ نہ دے ۔ پاکستان بھی افغانستان میں مداخلت نہ کرے۔ پاک افغان سرحد کو محفوظ کیا جائے کھر بوں روپے موٹر ویز پر لگائے جاتے ہی پاک افغان سرحد کو محفوظ کرنے کے لئے وسائل خرچ نہیں کر سکتے۔ لوگوں کے تحفظ کے لئے خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے ورنہ نہتے لوگ مرتے رہیں گے۔

چوکوں میں دھماکے ہوتے رہیں گے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سیاسی مکالمہ قانونی متبادل نہیں ہے ‘ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے ‘ بھٹو نے افغانوں کو سینے سے لگایا۔ افغان مسئلہ نے پورے عالم اسلام کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی آخری ملاقات افغان قیادت سے ہوئی۔ سرحد پر کسی واقعہ کے بعد فائرنگ نہیں ہونی چاہیے پر امن طریقے سے لوگوں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ناممکن ہے۔ ہم نے افغانستان میں دہشت گرد بھیجے۔ سارے عالم اسلام انتشار میں آ گیا ہے۔ پاکستان افغانستان کو دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنی چاہیے تاکہ دہشت گرد ان ممالک میں پناہ نہ لے سکیں۔ معاشی تعلقات امن کی ضمانت بنتے ہیں سرحدیں بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمارے لوگ مر رہے ہیں ہمارے شہر جل رہے ہیں مشترکہ دشمن کو پہنچانا جائے اور کارروائی کی جائے۔

سینٹر ولیم نے کہا کہ چمن میں حکومت کے توجہ نہ دینے سے خون خرابہ ہوا۔ 2600 کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لوہے کا جنگلہ کسی کو نہیں روک سکے گا۔ افغانوں سے پیار و محبت کی تاریخ کو دہرایا جانا چاہیے۔ صورتحال بہت خراب ہے جواب دینے کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے۔ مسئلہ پاگل پن سے حل نہیں ہو گا۔ بھارتی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہو گا۔

سینیٹر عبدالرحمن ملک نے کہا کہ غلطیوں سے قومیں پیچھے چلی جاتی ہیں افغانستان ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ چل رہا ہے۔ کون افغانوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے۔ جنگ کا ڈیزائنر ایک ہے جو امریکہ ہے۔ وہ خطے میں گڑبڑ او ر ڈسٹرب رکھنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب میں کانفرنس میں پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ہماری قربانیوں کا عتراف بھی نہیں کیا جو میزائل بھی پاکستان کو لگتا ہے وہ کراچی سے افغانستان جاتا ہے۔

مسلم امہ ایران کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہے۔ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کرائے۔ وزیر اعظم کو خط لکھ دیتا ہوں سعودی عرب اور قطر میں اختلافات ختم کروائیں۔ اے پی سی طلب کی جائے ۔ خطے اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال ای ک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔ امریکہ جنگ کو ختم نہیں بلکہ اسے فروغ دے رہا ہے اور بھارت کو استعمال کر رہا ہے۔