کسی سیکٹر کی مراعات کم کی نہ پبلک پراپرٹی کسی کے سپرد کی جا رہی ہے، قرضہ جات کسی صورت غریب عوام پر بوجھ نہیں ، ملکی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن رہے ہیں، وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کی پوسٹ بجٹ بحث کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو

جمعہ 9 جون 2017 17:52

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 جون2017ء) کسی سیکٹر کی مراعات کم کی گئی ہیں نہ پبلک پراپرٹی کسی کے سپرد کی جا رہی ہے ۔ آئندہ مالی سال میں تعلیم کا بجٹ رواں سال کی نسبت 33فیصد زیادہ رکھا گیا ہے۔ پبلک سکولوں میں مینجمنٹ کو بہتر بنانے اور عدم موجود سہولیات کی فراہمی کے لیے آئوٹ سورسنگ کی آزمودہ پالیسی کے تحت اس شعبہ میں پہلے سے سر گرم عمل معروف فلاحی اداروں کی خدمات مستعار لی جا رہی ہیں تا کہ ماہرین کی مدد سے نظام کی کمزوریوں کو دور کیا جا سکے اور عام آدمی کے بچوں کو معیاری تعلیم دی جا سکے۔

BHUsاور RHCsکو بہتر بنایا جا رہے ۔ بڑے ہسپتالوں میں مزید دوہزار بستروں کا اضافہ کیا جارہا ہے۔وینٹی لیٹرز کی کمی پوری کرنے کے لیے 40کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

گیارہ سو ارب روپے کے بلاسود قرض نہ صرف کسانوں کے معاشی استحکام کو یقینی بنائیں گے بلکہ اُنھیںآڑھتیوں کے چنگل سے بھی نجات دلائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے پوسٹ بجٹ بحث کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا ۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ تعلیم بلاشبہ حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے ۔ سال 2016-17میںتعلیم کے شعبہ میں قدرے بہتری آئی ہے جسے عالمی اداروں کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے ۔آئندہ مالی سال میں اسے مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے پائیدار اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، سکلز ڈویلپمنٹ، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزرز کا فروغ اور کاروبار میں آسانی کے علاوہ بلاسود قرضوں کی فراہمی شامل ہے۔

حکومت پنجاب پر قرضوں کے حوالے سے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ سال 2016-17کے اختتام پر حکومت پنجاب کا واجب الادا قرض 568ارب روپے ہوگا جس میں سے 554ارب بیرونی جبکہ 14ارب اندرونی ہے۔ بیرونی قرضوں کا 81فیصد ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک سے حاصل کیا گیا ہے جبکہ تمام اندرونی قرضے حکومت پاکستان کی وساطت سے حاصل کیے گئے ہیں۔

30جون تک حکومت پنجاب کا کل قرضہ صوبائی معیشت (GRP)کا 3.24فیصد ہوگا۔ مزید یہ کہ تقریباً تمام قرض طویل المیعاد ہیں اور خالصتاً ترقیاتی کاموں کے لیے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا دورانیہ 15سے 25سال ہے جو تقریباً 1فیصد سالانہ جیسی انتہائی کم شرح منافع پر حاصل کیے گئے ہیں۔ مالی سال2016-17میں حکومت کی جانب سے 36ارب روپے قرضہ اور منافع کی مد میں ادا کیے گئے جو صوبے کی سالانہ آمدن کا 2.5فیصد ہیں۔

اس 36ارب میں صرف 8.8ارب قرض کے اوپر منافع کی مد میں ادا کیا گیا ہے جو سالانہ آمدن کا 1فیصد ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ قرضہ جات کسی صورت غریب عوام پر بوجھ نہیں ہیں کیونکہ یہ ملک میں ترقی اور خوشحالی کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے حکومت پنجاب ایک جامع پالیسی پر کاربند ہے جو 2014 میں ترتیب دی گئی اور پنجاب کی ترقیاتی منصوبہ بندی (Growth Strategy) کا حصہ ہے جس کی بدولت رواں مالی سال میں پنجاب میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی اور دیگر تمام فصلوں کے پیداوری اہداف بھی مکمل ہوئے ۔

اس لیے یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ حکومت بغیر کسی پالیسی کے اس شعبہ کو چلا رہی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ آبپاشی، ماہی گیری، جنگلات ، خواراک اور لائیو سٹاک زراعت کے ذیلی شعبے ہیں ان کی ترقی کے بغیر زراعت کی بہتری ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب ان شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :