پی ایس ۔ 114 پر ہونیوالے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا شہر کی بڑی سیاسی جماعتوں کیلئے چیلنج بن گیا

نشست پر ہونیوالے الیکشن عام انتخابات سے قبل منی انتخابات کا درجہ اختیار کرگئے ،حلقہ تمام زبانیں بولنے والوں اور مختلف برادریوں پر مشتمل ہے پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی ، ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے علی اکبر گجر اورتحریک انصاف کے انجینئر نجیب ہارون کے درمیان سخت مقابلہ متوقع

منگل 20 جون 2017 18:02

پی ایس ۔ 114 پر ہونیوالے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا شہر کی بڑی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جون2017ء) کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس ۔ 114 پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا شہر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے چیلنج بن گیا ہے ۔ اس نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن عام انتخابات سے قبل منی انتخابات کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ہر بڑی سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ وہ اس نشست پر کامیابی حاصل کرکے آئندہ انتخابات کے لیے بڑے پیمانے پر انتخابی مہم کا آغاز کر سکے اور وہ اس جیت کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بناتے ہوئے اس بات کا اعلان کر سکیں کہ کراچی میں اب وہ اسٹیک ہولڈر جماعت کا درجہ رکھتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس ۔ 114 پر ضمنی انتخاب 9 جولائی کو منعقد ہو گا ۔ یہ حلقہ محمود آباد ، اعظم بستی ، منظور کالونی ، ٹی پی ٹو اور پی سی ایچ ایس کے کچھ بلاکس پر مشتمل ہے ۔

(جاری ہے)

اس حلقے میں تمام زبانیں بولنے لوگ رہتے ہیں اور یہ حلقہ مختلف برادریوں پر مشتمل ہے ۔ اس حلقے کی 70 فیصد آبادی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور اس حلقے کی منفرد حیثیت یہ ہے کہ یہاں ملک کی فرنیچر سازی کے سب سے زیادہ کارخانے واقع ہیں اور اس حلقے کی آبادی کا بیشتر حصہ فرنیچر سازی کے کام سے منسلک ہے ۔

یہاں گجر ، آرائیں ، نیازی ، پنجابی ، اردو کمیونٹی اور دیگر برادریوں کے لوگ آباد ہیں ۔ اسی لیے اس حلقے میں کسی ایک برادری کو انفرادی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ اس حلقے میں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) نے بھی ماضی میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے۔ 2008 کے عام انتخابات میں اس نشست پر ایم کیو ایم کے امیدوار عبدالرف صدیقی کامیاب ہوئے تھے اور 2013 عام انتخابات میں اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عرفان اللہ مروت نے کامیابی حاصل کی ۔

تاہم بعد میں رف صدیقی نے عرفان اللہ مروت کی کامیابی کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کیا اور ایک طویل عرصے تک یہ کیس عدالتوں میں چلتا رہا ۔ بالآخر سپریم کورٹ نے چار سال بعد اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ۔ پی ایس ۔ 114 میں ضمنی انتخاب 9 جولائی کو منعقد ہو گا ۔ اس ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سینیٹر سعید غنی ، ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار کامران ٹیسوری ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی اکبر گجر اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار انجینئر نجیب ہارون کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے ۔

ایم کیو ایم پاکستان ، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے پاس کوئی ایسا سیاسی کارکن نہیں تھا ، جس کو ان جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹ جاری کیا جاتا ۔ ان تینوں جماعتوں نے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے اپنے سیاسی رہنماں کو اس نشست کے لیے امیدوار نامزد کیا ۔ صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی کا تعلق اسی حلقے سے ہے اور وہ اس حلقے کے رہائشی ہیں ۔

حلقے میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی عوام کے درمیان یہ پیغام دے رہی ہے کہ حلقے کے مسائل صرف مقامی نمائندہ ہی حل کر سکتا ہے ۔ درآمد کیے گئے امیدوار میں سے کوئی بھی انتخاب میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر حلقے کے عوام کو اس امیدوار کو تلاش کرنا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ اس انتخابی مہم کے دوران مقامی اور غیر مقامی ہونے کا نعرہ بھی استعمال کیا جار ہا ہے تاہم پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کا سیاسی توڑ نکال لیا ہے اور انہوں نے ناراض لیگی رہنما عرفان اللہ مروت کی حمایت حاصل کر لی ہے ۔

عرفان اللہ مروت کا علاقے میں بڑا سیاسی اثرو رسوخ ہے اور وہ ماضی میں اس حلقے سے کامیاب بھی ہو چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار انجینئر نجیب ہارون کو عرفان اللہ مروت کی حمایت حاصل ہے ۔ اسی لیے سیاسی حلقوں کو یہ توقع ہے کہ نجیب ہارون عرفان اللہ مروت کے سیاسی اثرو رسوخ کے باعث مروت برادری اور مسلم لیگ(ن) کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

دوسری جانب سعید غنی بھی علاقے میں فعال اور متحرک انتخابی چلا رہے ہیں اور وہ مختلف برادریوں سے مسلسل رابطے میں ہیں ۔ اس انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ(ن)کے علی اکبر گجر نے بھی اپنی انٹری ڈال دی ہے ۔ علی اکبر گجر بھی ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں اور اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے برادریوں کی سطح پر انفرادی اور اجتماعی رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ۔

اس حلقے میں سب سے دلچسپ صورت حال کا سامنا ایم کیو ایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کو ہے ۔ کامران ٹیسوری حال ہی میں مسلم لیگ (فنکشنل) کو چھوڑ کر ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ہوئے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے اس نشست پر ان کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ۔ پارٹی قیادت کے اس فیصلے پر مقامی کارکنان کو تحفظات ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی تقسیم کا آغاز مارچ 2016 میں ہوا تھا ، جب انیس قائم خانی اور مصطفی کمال کراچی پہنچے اور انہوں نے اس وقت کی متحدہ سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھی ۔

اسی طرح 22 اگست 2016 کو پریس کلب کے باہر بانی متحدہ کی ایک متنازع تقریر کے سبب ایم کیو ایم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت سامنے آئی ، جس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بعد ایم کیو ایم لندن کا پارلیمانی مینڈیٹ ہے ۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے جو امیدوار کامیابی حاصل کرتے تھے ، ان کی نامزدگی بانی متحدہ کیا کرتے تھے اور ایم کیو ایم امیدوار بانی متحدہ کی اپیل پر ہی ووٹ کے حصول کے لیے عوامی اور انتخابی رابطہ مہم چلایا کرتے تھے ۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے ایم کیو ایم کے امیدوار کی کامیابی کی وجہ بانی متحدہ ہوا کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے ووٹرز امیدوار کو نہیں بلکہ قائد متحدہ کے اعلان کردہ نام کو ووٹ دیا کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اس حلقے میں انتخابی مہم چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کا تنظیمی اسٹرکچر فی الحال اتنا مضبوط نہیں ہے ، جیسا ماضی میں متحدہ کے پاس ہوا کرتا تھا ۔

ماضی کے متحدہ کے کارکنوں کی بڑی تعداد یا تو پی ایس پی میں چلی گئی ہے یا جو کارکنان لندن گروپ میں شامل ہیں ، وہ روپوشی کی زندگی کاٹ رہے ہیں یا مختلف مقدمات میں گرفتار ہو چکے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے امیدوار کی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے مزید تنظیمی ٹانز اور یوسیز کی سطح کے تنظیمی نیٹ ورک کی خدمات حاصل کر لی ہیں ۔

ایم کیو ایم لندن نے اس نشست پر ضمنی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور اپیل کی ہے کہ مہاجر اور ایم کیو ایم کے سپورٹرز اس دن گھروں میں رہیں اور اپنا ووٹ کاسٹ نہ کریں ۔ اس اپیل کے بعد اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ایم کیو ایم پاکستان ماضی کی متحدہ کے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ۔ اس کا فیصلہ تو 9 جولائی کو ہو گا ۔ اس نشست پر کامیابی کے لیے چاروں جماعتیں ایڑھی چوٹی کا لگا رہی ہیں اور ان کے مرکزی اور صوبائی رہنما علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی اس حلقے کا دورہ کرکے جا چکے ہیں ۔

اب یہ دیکھنا ہو گا کہ 9 جولائی کو کس جماعت کا امیدوار کامیابی حاصل کرتا ہے ۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس نشست پر کامیابی حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کے لیے چیلنج ہے ۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹرز کی اکثریت ہے اور کامیابی متحدہ پاکستان کو ہی ملے گی ۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی کا کہنا ہے کہ حلقے کے عوام جانتے ہیں کہ درآمدی امیدوار ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے اور عوام کی خدمت صرف پیپلز پارٹی کر رہی ہے ۔

9 جولائی کو ہر طرف تیر کا راج ہو گا ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار انجینئر نجیب ہارون کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دورے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ حلقے کے عوام چائنا کٹنگ ، کرپشن ، لٹیروں اور مافیاز کی حمایت کرنے والوں کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ 9 جولائی کا الیکشن کراچی کے لیے منی ریفرنڈم کا درجہ رکھتا ہے اور کامیابی پی ٹی آئی ہو حاصل ہو گی ۔ مسلم لیگ (ن)کے امیدوار علی اکبر گجر کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام کو امن بھی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے دیا ہے اور کراچی کو میگا پروجیکٹ بھی (ن)لیگ کی حکومت نے دیئے ہیں ۔ 9 جولائی کو پتنگ کٹ جائے گی ، بلا ٹوٹ جائے گا ، تیر ہوا میں غائب ہو جائے گا اور ہر طرف شیر کا راج ہو گا ۔