فیصل آباد,جرمن ماہرین کے 20رکنی وفد کی زرعی یونیورسٹی کے نگران وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں سے ملاقات

جامعہ زرعیہ کے 20سے زائد اساتذہ جرمن اداروں سے فارغ التحصیل ہیں ڈاکٹر اقرار احمد خاں

جمعرات 13 جولائی 2017 20:41

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 جولائی2017ء) جرمن ماہرین کے 20رکنی وفد نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نگران وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں اور سینئر مینجمنٹ سے ملاقات کی۔ یونیورسٹی کے نیو سنڈیکیٹ روم میں واٹر فٹ پرنٹس آف گلوبل کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری پراجیکٹ کے حوالے سے دورہ کرنے والے جرمن ماہرین کو یونیورسٹی کی عمومی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں پر بریفنگ دیتے ہوئے وائس چانسلرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے بتایا کہ جامعہ زرعیہ کے 20سے زائد اساتذہ جرمن اداروں سے فارغ التحصیل ہیں اور نئے پراجیکٹ کے ذریعے اس نیٹ ورکنگ میں مزید وسعت پیدا ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی سائنس دانوں نے کپاس کی مختصردورانیہ کی حامل ایسی ورائٹی متعارف کروائی ہے جس کا ٹرائل آئندہ چھ ماہ میں لگادیا جائے گا اوروہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ ورائٹی مشینی چنائی کے ذریعے کپاس کی پیداوار کو پائیدار بنیادفراہم کرنے میں کامیاب ہوگی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایاکہ قبل ازیں جرمنی کی کاسل یونیورسٹی کے اشتراک سے یونیورسٹی میں انٹرنیشنل سنٹر فار ڈویلپمنٹ و ڈیسنٹ ورک پہلے سے قائم ہے جس میں نوجوانوں کو سوشل سائنسز و پیری اربن ایگریکلچرمیں درجنوں پی ایچ ڈی و ایم فل سکالرشپس فراہم کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ نصف دہائی کی شعوری کوششوں کے نتیجہ میں یونیورسٹی ملک کی 180سے زائد جامعات میں واحد یونیورسٹی ہے جس میں مسابقتی بنیادوں پر اڑھائی ارب روپے مالیت کے 648تحقیقی منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔ ڈاکٹر اقراراحمد خاں نے بتایا کہ زرعی استعمال میں آنیوالے مجموعی پانی کا 40فیصد صرف گندم پر صرف ہورہا ہے جبکہ اگر اس کی 5آبپاشیوں کو کم کرکے 3تک محدود کر لیا جائے تو منگلا و تربیلا سے زائد پانی کی بچت کے نتیجہ میں وہی پانی دوسری فصلات کیلئے دستیاب ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ماہرین نے آم کی 10ایسی ورائٹیاں متعارف کروائی ہیںجن کی کاشت کو رواج دے کر صارفین کیلئے ستمبر تک آم دستیاب ہوسکیں گے۔ اس موقع پرڈین کلیہ زرعی انجینئرنگ و صنعتیات ڈاکٹر اللہ بخش نے بتایا کہ واٹر فٹ پرنٹس آف گلوبل کاٹن ٹیکسٹائل انڈسٹری پراجیکٹ کے 14پارٹنر جرمنی اور 10پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین سالہ پراجیکٹ کیلئے جرمن اداروں نے فنڈنگ فراہم کر دی ہے اور یونیورسٹی میں متنوع صلاحیت کے حامل سائنس دانوں کی موجودگی پراجیکٹ کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوگی۔

متعلقہ عنوان :