سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے وزیر اعظم کے اعتراضات کی تفصیلات سامنے آگئیں

جے آئی ٹی ممبران کو دھمکانے کی خبریں بھی عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہیں۔ ایسی باتیں وزیر اعظم کو عوام الناس میں بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ بد نیتی ، تعصب ، شکوک و شبہات اور مفروضوں پر مبنی ہے۔وزیر اعظم کا جواب

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 17 جولائی 2017 14:10

سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے وزیر اعظم کے اعتراضات کی تفصیلات سامنے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 جولائی 2017ء) : سپریم کورٹ میں آج جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت ہوئی ۔ سماعت میں وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی پر اعتراضات پر مبنی جواب جمع کروایا گیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے۔ جے آئی ٹی نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ باہمی قانونی معاونت کے لیے یو کے سے مدد لی گئی۔

جواب میں کہا گیا کہ یو کے سے جے آئی ٹی کے سربراہ کے کزن کی خدمات لی گئیں۔ برطانیہ میں ہائر کی گئی فرم واجد ضیا کے کزن اختر راجا کی ہے۔ اور اختر راجا لندن میں پی ٹی آئی کا ورکر ہے۔ وزیر اعظم نے اعتراض اٹھایا کہ جے آئی ٹی کے دو ممبران کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔بلال رسول کا تعلق پاکستان تحریک انصاف جبکہ عامر عزیز کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے۔

(جاری ہے)

بلال رسول کی اہلیہ پی ٹی آئی کی اُمیدوار رہی ہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کی جلد 10 کو خفیہ رکھا۔ جواب میں استدعا کی گئی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی جلد نمبر 10 کی کاپی فراہم کی جائے۔ رپورٹ میں وزیر اعظم کی ذات اور نوکری سے متعلق حقائق تصوراتی ہیں۔ وزیر اعظم نے اعتراض کیا کہ یہ وزیر اعظم کے بینادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اعتراض میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف شہادتیں عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے مترادف ہیں۔

تمام تفتیشی عمل متعصبانہ ، غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ شفاف تحقیقات کے بعد ٹرائل بھی شفاف ہو گا۔ درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا کہ مدعا علیہان کے ٹرائل کے لیے قانون کے مطابق مواد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ نا مکمل اور نقائص سے بھر پور ہے۔ جبکہ جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے کہا کہ مکمل رپورٹ جمع کروائی جا رہی ہے۔

نا مکمل رپورٹ کے باعث مدعا علیہان کے خلاف آرڈر پاس نہیں کیا جا سکتا۔ فئیر ٹرائل مدعا علیہان کا بنیادی حق ہے۔ وزیر اعظم نے استدعا کی کہ غیر شفاف ٹرائل کو کالعدم قرار دیا جائے۔ وزیر اعظم نے درخواست میں کہا کہ اب جے آئی ٹی کو مزید کوئی مواد جمع کروانے نہ دیا جائے۔ جے آئی ٹی نے مدعا علیہان کو کوئی دستاویز بھی نہیں دکھائی۔ جے آئی ٹی نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر کام کیا۔

بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر دستاویزات حاصل کیں۔ کوئی دستاویز تصدیق شدہ اور اوریجنل نہیں ہے۔دستاویزات کے حصول سے متعلق بھی جے آئی ٹی نے کسی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔ درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا کہ جے آئی ٹی ممبران کو دھمکانے کی خبریں بھی عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہیں۔ ایسی باتیں وزیر اعظم کو عوام الناس میں بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ بد نیتی ، تعصب ، شکوک و شبہات اور مفروضوں پر مبنی ہے۔ جے آئی ٹی کے وزیر اعظم سے متعلق ریمارکس بھی تعصب ظاہر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے یہ جواب ان کے وکیل خواجہ حارث نے جمع کروایا۔

متعلقہ عنوان :