جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائیگا ،ْ

قانونی پیرامیٹرز دیکھ کر فیصلہ کریں گے ،ْ سپریم کورٹ

پیر 17 جولائی 2017 16:26

جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائیگا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جولائی2017ء) سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ججز نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائیگا ،ْ قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے ۔ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے ،ْ ہم اس کے پابند نہیں ،ْبتانا ہوگا کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں پیر کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانا ما عملدر آمد بینچ نے سماعت کی ۔

سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرائے۔ شریف خاندان نے اپنے اعتراضات میں موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کوعدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کاحکم دیا تھا تاہم جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ،ْجے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیااس لیے عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دور ان عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جبکہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ نااہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھاجبکہ جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔

نعیم بخاری نے کہاکہ فیصلے کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی ،ْجے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی ،ْ10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی ،ْگلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہ کرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی، جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کوغلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا۔

جے آئی ٹی نے فہد بن جاسم کو 12 ملین درہم ادا کرنے کو افسانہ قرار دیا۔ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کیلئے چار خط لکھے، جے آئی ٹی نے کہا کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں ،ْ اس کے علاوہ قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔عمران خان کے وکیل نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی ۔

جے آئی ٹی نے اس خط و کتابت تصدیق کی۔ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں ،ْتحقیقات کے دوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے، ٹرسٹی ہونے کیلئے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے۔ بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ،ْ فورنزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا۔حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا ،ْحدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سربمہر ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ،ْ انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ بیان تضاد کی نشاندہی کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائیگا ،ْ قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق نوازشریف نے سعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کیلئے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا ،ْعزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کیں لیکن جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نوازشریف کی ہے حسین نواز کے مطابق ایف زیڈ ای کمپنی 2014 میں ختم کردی گئی ،ْنواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے۔ عدالت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے ،ْجس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔ کمپنی نے نوازشریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اور برطانوی حکام کو 7 ،7 خطوط لکھے،اس کے علاوہ سعودی عرب کو بھی ایک خط لکھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔

یو اے ای حکومت کو لکھے گئے خطوط رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں ہوں گے جو ظاہر نہیں کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو والیم 10 کو بھی کھول کر دیکھیں گے۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے ،ْحسن نواز نے کہا کہ 2006 سے پہلے انہیں رقم کی برطانیہ منتقلی کا علم نہیں تھا۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان فنڈز ٹرانسفر کا بھی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ حسن نواز فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ فنڈز کہاں سے آئی نعیم بخاری نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کے مطابق حسن نواز کے پاس کاروبار کیلئے پیسے نہیں تھے اور ان کے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں ،ْنواز شریف کے اثاثے بھی ان کی آمدن سے زائد ثابت ہوئے، اس کا ذکر جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل ہے ۔جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثے ہونے کے کیا نتائج ہوں گے۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا ہے کہ ہم نے عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کا ڈیکلریشن مانگا ہے، نواز شریف کے خلا ف نیب کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل نے دلائل کے دوران بتایا کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمات 1991 سے زیر التواء ہیں ،ْ 9 مقدمات میں لکھا ہے کہ تحقیقات ابھی تک جاری ہیں لیکن تحقیقات کہاں جاری ہیں ،ْیہ نہیں بتایا گیا ،ْجے آئی ٹی نے تمام مقدمات سے متعلق سفارشات بھی کی ہیںآخر میں نعیم بخاری نے عدالت سے وزیراعظم نوازشریف کو عدالت طلب کرنے کی استدعا کی تاکہ ان سے جرح کی جاسکے جس کے ساتھ ہی نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہوگئے۔

نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ میری درخواست نواز شریف کی اسمبلی تقریر کے گرد گھومتی ہے،نواز شریف نے اسمبلی تقریر اور قوم سے خطاب میں سچ نہیں بولا، جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے تعاون نہیں کیا، انہوں نے نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دیئے، نواز شریف نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری کاعلم ہے مگر کچھ یاد نہیں، نواز شریف نے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ تو ہم نے بھی پڑھی ہوئی ہے ،ْآپ سے رپورٹ پر دلائل مانگے ہیں جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں ،ْآپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں۔

جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں ،ْ بتائیں ہم اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں جس پر توفیق آصف نے کہا کہ عدالت نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ دے کر معاملہ ٹرائل کیلئے بھجوائے کیونکہ بادی النظر میں وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر کا مطلب ابھی صادق اور امین پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کے تیسرے مدعی شیخ رشید نے اپنے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ،ْجے آئی ٹی کی سپر6اور ججز کو قوم کی خدمت کا اجر ملے گا، انشاء اللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہو گا ،ْہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے اور اس معاملے کے پیچھے نواز شریف کا چہرہ ہے ،ْنواز شریف نے لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کی ،ْمریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں تو مزید آف شور کمپنیاں بھی نکل آئیں۔

جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے کروڑوں کما لیتے ہیں، قوم کی ناک کٹ گئی کہ وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا،اب معاملہ ملکی عزت کا ہے، جو ڈھائی گھنٹے بعد اپنے خالو کو پہچانے اس پر کیا بھروسہ کیا جا سکتاہے، پی ٹی وی کا خاکروب 18 ہزار اور وزیر اعظم 5 ہزار روپے ٹیکس دیتا تھا اور تو اور 1500 ریال لینے والے کیپٹن صفدر کے بھی 12 مربے نکل آئے ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمان نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں ،ْشیخ سعید نواز شریف کے ساتھ ہر عرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں پاکستانی سفیروں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ صدر نیشنل بینک نے تسلیم کیا کہ وہ جعلسازی کرتے پکڑے گئے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نیشنل بینک کے موجودہ صدر کی بات کر رہے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کو مثالی سزا دی جائے ،ْان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جائے اور اگر کیس نیب کو بھیجا گیا تو وہاں بھی جے آئی ٹی بنائی جائے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ انشاء اللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہوگا۔شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں ،ْایک درخواست جلد 10 فراہم کرنے سے متعلق جبکہ دوسری درخواست جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سے متعلق ہے۔

خواجہ حارث نے کہاکہ دستاویزات اکٹھی کرنے میں جے آئی ٹی نے قانون کی خلاف ورزی کی ،ْجے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اس میں شامل دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا لہذا عدالت جے آئی ٹی رپورٹ اور درخواستیں خارج کرے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کو ایشوز تک محدود رکھیں تو آسانی ہوگی ،ْہم چاہتے ہیں کہ عدالت اور قوم کا وقت ضائع نہ ہو جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ رپورٹ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون اور حقائق کے خلاف ہے جس کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا۔بعدازاں کیس کی سماعت (آج) منگل 18 جولائی تک کیلئے ملتوی کردی گئی ،ْ شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔