وزیراعظم نے جے آئی ٹی رپورٹ اور ارکان پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیئے

عدالت اعتراضات کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لے،جے آئی ٹی نے تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ اور ختیارات کا غلط استعمال کیا ، مینڈیٹ سے تجاوز کرکے ایسی رپورٹ مرتب کی جس کے بڑے حصے کا تعلق ان معاملات سے ہے جو عدالتی حکم میں شامل ہی نہیں، بیرون ملک سے دستاویزات کے حصول کیلئے اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوز کیا،نجی فرم کی خدمات حاصل کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا،تحقیقات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا، رپورٹ پر عدالت کوئی حکم جاری نہیںکرسکتی اس رپورٹ کو مسترد کیا جائے، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے جمع کرائے گئے اعتراضات ، عدالت سے رپورٹ کی جلد 10کی کاپی کی فراہمی کا بھی مطالبہ

پیر 17 جولائی 2017 19:18

وزیراعظم نے جے آئی ٹی رپورٹ اور ارکان پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 جولائی2017ء) وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ اور جے آئی ٹی ارکان پرسیاسی وابستگیوں سمیت دیگر سنگین نوعیت کے اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیئے گئے اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ ان اعتراضات کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لے،اعتراضات میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کر کے مینڈیٹ سے تجاوز کرکے ایک ایسی رپورٹ مرتب کی جس کے بڑے حصے کا تعلق ان معاملات سے ہے جو عدالتی حکم میں شامل ہی نہیں،جے آئی ٹی نے بیرون ملک سے دستاویزات کے حصول کیلئے اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوز کیا اور ایک نجی فرم کی خدمات حاصل کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا،تحقیقات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا، رپورٹ پر عدالت کوئی حکم جاری نہیںکرسکتی اس رپورٹ کو مسترد کیا جائے، عدالت سے رپورٹ کے والیم10کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جانبدارانہ ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10بھی فراہم کیا جائے، جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے ہٹ کر تحقیقات کیں، جے آئی ٹی کو عدالت نے 13سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا، جے آئی ٹی نے دوران تحقیقات مینڈیٹ سے تجاوز کیا، اس لئے یہ رپورٹ مسترد کی جائے، رپورٹ پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا،حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی لاہور ہائیکورٹ نمٹا چکی ہے۔

اعتراض میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات تعصب پر مبنی اور غیر شفاف ہیں، صاف شفاف تحقیقات کے بعد فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا، تحقیقات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا، جے آئی ٹی نے دستیاب ریکارڈ پر جرح نہیں کی، اس لئے یہ رپورٹ نا مکمل ہے، رپورٹ پر کسی فریق کے خلاف حکم جاری نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی کے پاس حدیبیہ پیپر ملز چودھری شوگر ملز پر رائے دینے کا مینڈیٹ نہیں تھا، جے آئی ٹی وزیراعظم کے خلاف ٹھوس ثبوت حاصل نہیں کر سکی۔

حسن نواز نے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر اعتراض اٹھایا تھا۔ بلال رسول کے پی ٹی آئی اور (ق) لیگ سے قریبی تعلقات ہیں، عامر عزیز مشرف دور میں حدیبیہ پیپرز مل کی تحقیقات کرتے رہے، نیب کے نمائندے عرفان نعیم منگی کی تعیناتی پر بھی سوالیہ نشانات ہیں۔ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے برطانیہ میں اپنے کزن کی فرم کی خدمات حاصل کیں جبکہ قانون کے مطابق نجی فرم کی خدمات حاصل نہیں کی جا سکتی، اس فرم کو قومی خزانے سے ادائیگی کر کے خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔

وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی نمائندے پر بھی اعتراض کئے، اعتراض میں کہا گیا کہ تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں افسر نہیں تھا اور نہ ہی اس کی تنخواہ سے متعلق کوئی ریکارڈ ہے ، نمائندہ بطور سورس تعینات ہوا ہے، سور س ملازم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، سرکاری دستاویزات میں نمائندے کی تنخواہ کا بھی ذکر نہیں، عدالت اعتراضات کی روشنی میں جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لے۔