پاکستان کو ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا سویلنیز نے بیڑہ غرق کر دیا ،ْ میرے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درست نہیں ،ْ پرویز مشرف

پاکستان توڑنے میں فوج کا نہیں بھٹو کا قصور تھا ،ْ کچھ الزام یحییٰ خان پر بھی آتا ہے ،ْ سابق آرمی چیف قوم کو بچانے کیلئے آئین کو تھوڑا سا نظر انداز کر کیا جاسکتا ہے ‘ جنرل ضیاء کا دور متنازع تھا ،ْ ملک کو انتہا پسندی کی جانب دھکیلا گیا ،ْ ضیاء نے سویت یونین کیخلاف ٹھیک کیا ،ْ انٹرویو حکومت کو ہٹانے کا اختیار عوام کو ہونا چاہیے ،ْ پاکستان میں حالات مختلف ہیں ،ْ عوام تب ہوتی ہے جب آئین کے اندر چیکس اینڈ بیلنسز ہوں ،ْمیں نے عوام کے مطالبے پر ٹیک اوور کیا‘ یقین ہے فوج ہمیشہ میری ویلفیئر کی طرف دیکھتی ہے ،ْسربراہ آل پاکستان مسلم لیگ

جمعرات 3 اگست 2017 12:31

پاکستان کو ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا سویلنیز نے بیڑہ غرق کر دیا ،ْ میرے خلاف ..
اسلام آباد/لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اگست2017ء) آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ او ر سابق فوجی صدرجنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لا لگائے گئے یہ اس وقت کے حالات کا تقاضا تھا ،ْپاکستان میں فوج ملک کو پٹری پر لاتی ہے اور سویلین آ کر پھر اسے پٹری سے اتار دیتے ہیں ،ْعوام اور ملک کو ترقی، عوام کو روزگار، خوشحالی اور سکیورٹی چاہیے ،ْایشیاء کے تمام ممالک میں ترقی ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے ،ْ پاکستان کوبھی ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا سویلنیز نے بیڑہ غرق کر دیا ۔

پاکستان کی آزادی کے 70 برس مکمل ہونے پر بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویومیں پرویز مشرف نے کہاکہ چاہے ڈیموکریسی ہو ،ْیا ڈکٹیٹرشپ ہو ،ْیا کمیونزم ہو یا سوشلزم ہو ،ْیا بادشاہت ہو۔

(جاری ہے)

عوام کو یا ملک کو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا ،ْعوام اور ملک کو ترقی، عوام کی خوشحالی چاہیے ،ْعوام کو روزگار، خوشحالی اور سکیورٹی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ایشیا کے سارے ممالک میں دیکھیں جہاں بھی ترقی ہوئی ہے صرف ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے ،ْپاکستان کو بھی ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا، لیکن جب وہ گئے تو سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا۔

انہوںنے کہاکہ سویلین حکومتوں اور فوجی حکومتوں کے ریکارڈ دیکھ لیں ،ْفوجی ڈکٹیٹرشپ میں ملک نے ہمیشہ ترقی کی۔ایک سوال کے جواب میں سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ اگر الیکشن کرا دئیے ،ْ لبرٹی دے دی لیکن خوشحالی نہیں دی تو اس کا کیا فائدہ انھوں نے کہا کہ پاکستان توڑنے میں فوج کا نہیں بھٹو کا قصور تھا۔ کچھ الزام یحییٰ خان پر بھی آتا ہے لیکن ایوب خان کے دس سال کی حکومت میں ملک نے ترقی کے ریکارڈ قائم کیے تاہم جنرل مشرف نے تسلیم کیا کہ ضیاء کا دور متنازع تھا میں بھی تسلیم کروں گا کہ انھوں نے ملک کو مذہبی انتہاپسندی کی جانب دھکیلا۔

انھوں نے ایسی راہ چنی جس کا اثر ملک پر آج بھی ہے۔ لیکن جو انھوں نے (ضیاالحق نی) طالبان اور امریکہ کی مدد کی سویت یونین کے خلاف وہ بالکل ٹھیک کیا۔انھوں نے کہا کہ افغان جنگ میں فوج نے پیسے نہیں بنائے لیکن کچھ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو ہتھیار خرید رہے ہوں ،ْافغانستان میں پیسے تقسیم کر رہے ہوں ان میں سے کچھ ملوث ہوسکتے ہیں جنھوں نے پیسے بنائے ہوں۔

لیکن فوج نے بطور ادارہ کوئی پیسے نہیں بنائے۔ ایک سوال کے جواب میں سابق جنرل مشرف نے کہا کہ حکومت کو ہٹانے کا اختیار عوام کو ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں حالات مختلف ہیں۔ عوام تب ہوتی ہے جب آئین کے اندر چیکس اینڈ بیلنسز ہوں۔ عوام خود بھاگ کر فوج کے پاس آتی ہے کہ ہماری جان چھڑوائیں ،ْلوگ میرے پاس آکر کہتے تھے کہ ہماری جان چھڑوائیں ،ْمیں نے عوام کے مطالبے پر ٹیک اوور کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ آئین مقدس ہے لیکن آئین سے زیادہ قوم مقدس ہے ،ْہم آئین کو بچاتے ہوئے قوم کو ختم نہیں کر سکتے لیکن قوم کو بچانے کے لئے آئین کو تھوڑا سا نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔‘انہوںنے کہاکہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درست نہیں ،ْملک جارہا ہے ،ْاب میں سوچوں کہ آئین ہے ،ْآرٹیکل چھ میں کیا لکھا ہوا ہے ،ْیہ سوچوں یا ملک کو بچا لوں ،ْ مجھے لٹکا دو۔

جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر الزام لگایا کہ ان کی انڈیا پالیسی ٹوٹل سیل آؤٹ پالیسی تھی۔ انڈیا بلوچستان میں ملوث ہے اور جو کوئی پاکستان کو نہیں مانے گا، ملک کی بقا کے خلاف ہوگا اس کو مارنا چاہیے۔ملک سے نکلنے میں مدد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ میں فوج کا سربراہ رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ فوج ہمیشہ میری ویلفیئر کی طرف دیکھتی ہے۔