آئینی لحاظ سے غدار شخص کی زبان سے آئین اور جمہوریت کے خلاف بیان بازی قابل مذمت اور شرمناک ھے، خورشید احمد شاہ

جمعہ 4 اگست 2017 23:17

آئینی لحاظ سے غدار شخص کی زبان سے آئین اور جمہوریت کے خلاف بیان بازی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 اگست2017ء) قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے پرویز مشرف کے جمہوریت اور آئین کے خلاف دئے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ھے کہ ایک ایسا شخص جو اخلاقی لحاظ سے محسن کش، قانونی لحاظ سے بھگوڑا اور آئینی لحاظ سے غدار ھے اس کی زبان سے آئین اور جمہوریت کے خلاف بیان بازی قابل مذمت اور شرمناک ھے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آمروں نے پہلے متحدہ پاکستان میں عوام سے حقوق چھین کر نفرت اور علیحدگی کے بیج بوئے اور پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ملک کو غیروں کی جنگوں میں جھونکا اور علاقائیت، لاقانونیت، دہشت گردی اور تعصب کی بنیاد رکھی جسے قوم آج تک بھگت رہی ھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹروں کو چاہئے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور دیکھیں کہ صرف چار سال وزیراعظم رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو آج بھی نہ صرف عوام کے دلوں میں زندہ ھیں بلکہ آمروں کی بدترین آمریت کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں انکی دی ہوئی جمہوریت اور آئین کا بول بالا ھے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف گیارہ گیارہ سال تک عوام کو آمریت کے حصار میں رکھنے والے آمر نفرت کا نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اس ملک کے گلی کوچوں میں زندہ ھے بھٹو زندہ ھے کی صدائیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا آمروں کا حلف ملک کی حفاظت تھا اور انہوں نے حلف توڑ کرعوام پر ظلم و جبر کے ضابطے نافذ کئے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی باتوں میں ان کی اصل اوقات چھپی ھے کہ انہوں نے ایک سیاسی پارٹی بنائی اور عام انتخابات میں حصہ لیا اور صرف ایک سیٹ جیتی جو آمر کی کارکردگی کا ثبوت ھے۔

انہوں نے کہا کہ آمر پرویز مشرف وہ دن بھول گئے جب انکی بدترین پالیسیوں کی وجہ سے ہماری بہادر اور محب وطن فوج کے جوان اور افسران اپنے ملک میں وردی میں بیرکوں سے باہر نہیں آسکتے تھے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ پرویز مشرف ۲۱ ویں صدی میں ایک بار پھر عوام پر جنگل کا قانون مسلط کرنا چاہتے ہیں مگر یہ حسرت انکے دل میں ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں پرویز مشرف سے پوچھتا ہوں کہ 1966 میں شیخ مجیب الرحمن نے جن چھ نکات کی بنیاد پر مشرقی پاکستان میں زیادہ خودمختاری کیلئے مہم شروع کی تھی کیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد کا ردعمل تھا اور 70 کے انتخابات جو مجیب الرحمن نے علیحدگی کا راستہ دکھانے والے چھ نکات پر لڑے اور جیتے کیا وہ بھٹو کے کسی عہد کا ردعمل تھا یا ہمارے آمروں کی طویل اور بدترین آمریت کا شاخسانہ تھا انہوں نے کہا کہ اگر پرویز مشرف سچا ھے اور تاریخ سے واقف ھے تو پھر وہ بتائے کہ مشرقی پاکستان کے عوام جو تحریک آزادی میں پیش پیش تھے اور جنہوں نے قائد اعظم کی قیادت میں ہمارے شانہ بشانہ پاکستان حاصل کیا وہ آزادی کے ۲۰ سال بعد علیحدگی کے راستے پر کیوں چل پڑے سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ نفرت اور علیحدگی کی یہ بنیاد اقتدار کے بھوکے ظالم اور جابر آمروں نے عوام کو محکوم بنا کر رکھی اور ناانصافی کی حد تو یہ ھے کہ آمروں نے اپنے دور میں مشرقی پاکستان میں گورنر بھی مغربی پاکستان سے لگائے اور انہیں ان کے جائز اقتدار سے بھی محروم رکھا۔

انہوں نے کہا آمروں کو اور ان کے پیروکاروں کو اپنے کرتوتوں پر شرم آنی چاہئے کہ جنہوں نے اس محسن کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جس نے اس ملک کو ناقابل تسخیر بنایا، ۹۰ ہزار قیدی چھڑائے اور ہزاروں میل رقبہ بھارت سے واپس لیا۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف قانون کی نظر میں بھگوڑا ھے اور آئین کی نظر میں غدار ھے اس لیے وہ اپنی انا کی جھوٹی تسکین کیلئے جمہوریت ، قانون اور آئین کے خلاف باتیں کررہا ھے کہ شائد کوئی طالع آزما آئے اور اسے بھی قانون کی گرفت سے آزادی مل جائے۔

متعلقہ عنوان :