بھارت کو دوست نہیں کہہ سکتا ، مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے ،

خارجہ پالیسی کو سب نے مل کر نافذ کرنا ہوگا ، آرمی چیف نے بالکل ٹھیک کہا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے ،پانامہ فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دیں گے ، آرٹیکل 62،63میں ابہام ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے ، یہ احتجاج نہیں نوازشریف کا استقبال ہے ،لوڈشیڈنگ نومبر 2017تک مکمل ختم ہوجائے گی ، ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا ، نوازشریف کا اقامہ ختم ہوچکا تھا ، عوام نے پانامہ کیس کا فیصلہ قبول نہیں کیا ، میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے ، پارلیمنٹ کی مشاورت سے آرٹیکل 62اور63میں ترمیم کی جاسکتی ہے ، جی ٹی روڈ سے جانا پارٹی کا فیصلہ تھا ، شہباز شریف اور کلثوم نواز کے متعلق فیصلہ پارٹی کرے گی ، حکمران ٹیکس نہ دیں تو دوسروں کو بھی نہیں کہہ سکتے ، آمر نے نیب لاء سیاسی جماعتوں کو توڑنے کے لئے بنایا تھا وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

بدھ 9 اگست 2017 23:35

بھارت کو دوست نہیں کہہ سکتا ، مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تعلقات ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 اگست2017ء) وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا ہے کہ بھارت کو میں دوست نہیں کہہ سکتا ، مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے ، خارجہ پالیسی کو سب نے مل کر نافذ کرنا ہوگا ، آرمی چیف نے بالکل ٹھیک کہا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے ،پانامہ فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دیں گے ، آرٹیکل 62,63میں ابہام ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے ، یہ احتجاج نہیں نوازشریف کا استقبال ہے ، نومبر 2017تک لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہوجائے گی ،ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا ، نوازشریف کا اقامہ ختم ہوچکا تھا ، عوام نے پانامہ کیس کا فیصلہ قبول نہیں کیا ، میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے ، پارلیمنٹ کی مشاورت سے آرٹیکل 62اور63میں ترمیم کی جاسکتی ہے ، جی ٹی روڈ سے جانا پارٹی کا فیصلہ تھا ، شہباز شریف اور کلثوم نواز کے متعلق فیصلہ پارٹی کرے گی ، حکمران ٹیکس نہ دیں تو دوسروں کو بھی نہیں کہہ سکتے ، آمر نے نیب لاء سیاسی جماعتوں کو توڑنے کے لئے بنایا تھا ، نادرا کے شناختی کارڈ نمبر کو این ٹی این بنا دیا جائے تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا ۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ میاں نوازشریف کے جی ٹی روڈ سے جانے کا فیصلہ پارٹی نے کیا تھا ، عوام نے عدالت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا ، یہ احتجاج نہیں ہے ، یہ نوازشریف کا استقبال ہے ، فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دیں گے اور درخواست میں یہ بھی استدعا کریں گے کہ نظر ثانی درخواست کی سماعت لاجز بینچ کرے ، میں وزیراعظم نہ ہوتا تو زیادہ کھل کر عدالتی فیصلے پر بات کرسکتا تھا مگر اتنا کہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کے علاوہ ہمارے مخالفین کو بھی یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادا نہ کرنا جرم ہے کیونکہ اس سے ادارے کمزور ہوتے ہیں ،حکمران خود ٹیکس نہ دیں تو دوسروں کو بھی نہیں کہہ سکتے ، نادرا کے نمبر کو این ٹی این نمبر بنا دیا جائے تو ہر شخص ٹیکس ادا کرے گا اور تمام معاملہ ٹھیک ہو جائے گا ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ لوگوں سے ان کے لائف سٹال کے مطابق آمدن پر سوال کیا جاسکتا ہے ، میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے مگر آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ے ، ملک سے باہر میرا کوئی اثاثہ نہیں ہے ۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میری کرسی پارٹی کی امانت ہے ، میاں نوازشریف نے روانہ ہوتے وقت کہا کہ میں بقیہ مدت کیلئے وزیراعظم رہوں گا مگر اس کے باوجود پارٹی جب کہے گی میں یہ عہدہ چھوڑ سکتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62,63پر بہت ابہام ہے اس لئے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، یہ تبدیلی پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے ہونی چاہیے اس کو دیکھا جائے تو کسی پر بھی آرٹیکل کا نفاذ نہیں ہوسکتا اور اگر نفاذ کرنے پر آجائیں تو شاید 20کروڑ میں سے کوئی بھی اس کا شق پر پورا نہیں اترتا ۔

انہوں نے کہا کہ نئے پارٹی ہیڈ کا اور این اے 120میں الیکشن کا فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے ، بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ میاں برادران میں پھوٹ پر جائے مگر ان کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ، میری خواہش تھی کہ چوہدری نثار صاحب میری کابینہ کا حصہ ہوتے مگر وہ اس سے پہلے استعفیٰ کا کہہ چکے تھے تو اس لئے شامل نہیں ہوئے ، چوہدری نثار نے مجھے ووٹ بھی دیا تھا اور کہا کہ میری حمایت آپ کے ساتھ ہے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف تجربہ کار سیاستدان تھے اس لئے بڑی کابینہ کی ضرورت نہیں تھی مگر میرا تجربہ کم ہے اس لئے بڑی کابینہ کی ضرورت پڑی ، میں پارٹی پالیسیز کو اسی طرح جاری رکھوں گا ، ہمیں ملازمتوں کے مواقع بڑھانے ہیں اور معیشت اور انرجی سیکٹر کو مضبوط کرنا ہے ۔ نومبر 2017تک لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہوجائے گی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت قانون لائی ہے آف شور کمپنیاں ڈکلیئر کرنا پڑیں گی اور ٹیکس نظام میں بھی بہت ساری اصلاحات کرنا پڑیں گی ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات پر بات کرنا ایک فیشن بن گیا ہے ، ماضی میں تصادم ہوتا رہا ہے مگر اب ہمیں آگے بڑھنا ہے ، حکومت اور فوج کوئی فریق نہیں ہیں ، ہمیں پاکستان کے مسائل کو مل کر حل کرنا ہے اور خارجہ پالیسی کو ہم سب نے مل کر نافذ کرنا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے ، آرمی چیف نے بالکل ٹھیک کہا قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے ۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ لڑ رہا ہے ، افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے سے پہلے ہمیں اپنی سوورینٹی کو دیکھنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کو مزید آگے بڑھانا ہے اور وہاں پر نوجوانوں کیلئے ملازمتیں بھی نکالنی ہیں ، ایم کیو ایم کے دفاتر کا مجھے علم نہیں ہے ، کراچی میں پانی کے مسئلے اور انفراسٹرکچر کو بھی ٹھیک کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی جماعتیں نیب لاء کو چھونے سے گھبراتی ہیں ، یہ نیب صرف ہماری جماعت کے خلاف استعمال ہوا ہے ، نیب ایک آمر نے سیاسی جماعتیں توڑنے کیلئے بنایا تھا اور آہستہ آہستہ پھیلتا چلا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ (آج) دانیا ل عزیز سمیت 4مزید وزراء حلف اٹھائیں گے تو پھر کابینہ مکمل ہو جائے گی ۔