آزادی کا مطلب سوچ اور فکر کی آزادی ہے اور آزادی کا دن منا لینا ہی کافی نہیں ہمیں ملک کو آگے لے کر جانا ہے ،پچھلے ایک سال میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ چالیس ہزار مقدمات کے فیصلے ہوئے، مصالحتی مراکز اور ماڈل کورٹس کے قیام، جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ اور جوڈیشل افسران کو سہولیات کی فراہمی سے عدلیہ میں تبدیلی آ رہی ہے

عدلیہ میں شفافیت کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاں اور تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کا عدالت عالیہ میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب

پیر 14 اگست 2017 15:29

آزادی کا مطلب سوچ اور فکر کی آزادی ہے اور آزادی کا دن منا لینا ہی ..
لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اگست2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آزادی کا مطلب سوچ اور فکر کی آزادی ہے اور آزادی کا دن منا لینا ہی کافی نہیں ہے، ہمیں اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے اور اس کیلئے عملی جدوجہد کرنا ہے،پچھلے ایک سال میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ چالیس ہزار مقدمات کے فیصلے ہوئے، عدلیہ کی پالیسی بند کمرے میں نہیں بن سکتی، اس لئے ہم نے شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھیں ہیں، ہائی کورٹ پاکستان کا ادارہ ہے جس کے ہر کونے اور پہلو سے پاکستان جھلکتا ہے۔

وہ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں یوم آزادی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ قبل ازیں فاضل چیف جسٹس نے دیگر جج صاحبان کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ کی تاریخی عمارت پر قومی پرچم لہرایا اور چاک و چوبند دستے کی جانب سے دیئے گئے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس شاہد حمید ڈار سمیت دیگر فاضل جج صاحبان، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری اور افسران و اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے تمام حاضرین اور پورے وطن کو پاکستان کی 70ویں سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کا مطلب سوچ اور فکر کی آزادی ہے اور آزادی کا دن منا لینا ہی کافی نہیں ہے، ہمیں اس ملک کو آگے کے کر جانا ہے اور اس کیلئے عملی جدوجہد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ پاکستان کا آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں شفافیت کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاں اور تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں، تعمیری تنقید کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی عدلیہ میں جدید اصلاحات کا عمل جاری ہے، مصالحتی مراکز اور ماڈل کورٹس کا قیام، جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ اور جوڈیشل افسران کو سہولیات کی فراہمی سے عدلیہ میں تبدیلی آ رہی ہے، پرانے اور روائتی طریقوں سے لاکھوں کی تعداد میں زیر التواء مقدمات کے فیصلے ممکن نہیں، اس لئے جدید طریقے اپنائے، سٹیٹ آف دی آرٹ انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم، کیس مینجمنٹ سسٹم، سہوت سنٹر کا قیام اور سائلین کو انکے مقدمات کی آگاہی کیلئے ہائی کورٹ ایپلیکیشن و ہیلپ لائن 1134 نہایت اہمیت کی حامل ہیں، جن کے ثمرات سب کے سامنے ہیں، پچھلے ایک سال میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ چالیس ہزار مقدمات کے فیصلے ہوئے، ضلعی عدلیہ میں 21 لاکھ، ماڈل کورٹس کی بدولت 13 ہزار مقدمات اور ADR سنٹرز میں محض دو ماہ میں تین ہزار کے قریب مقدمات کے فیصلے ہوئے ،باوجود اس کے کہ ہر ضلع میں ایک ایک مصالحتی مرکز ہے۔

فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انسانی وسائل اور انکی استعدادکار میں اضافے کے بغیر ادارے کی ترقی ممکن نہیں، ادارے میں بہتری کیلئے اقدامات روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی ایک طبیعت، سوچ اور مزاج کا نام ہے، ایک دن منانے سے آزادی کا حق ادا نہیں ہوسکتا، ہمیں سارا سال اپنے روزمرہ کے کام میں اس کو یاد رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا ہر کام میرٹ کی بنیاد پر سرانجام دیں، کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے کوئی پرواہ نہیں لیکن کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیئے، لاہور ہائی کورٹ میں میرٹ کی بنیاد پر دونوں ہاتھوں سے معذور لڑکے کو بھی نوکری دی گئی ہے، یہ ادارہ پاکستان کا چہرہ ہے جس کی شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہم دن رات کوشاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ستمبر سے ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں نیا ڈریس کوڈمتعارف کروایا جا رہا ہے، اب ضلعی عدلیہ کے ججز بھی عدالتوں میں گائون پہن کر بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عزت و احترام عدلیہ کا طرہ امتیاز ہے، بار ایسوسی ایشنز بھی عزت و احترام کے اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اپنا کرداراداکریں۔

متعلقہ عنوان :