اردو کے لیے باباے اردو اور جمیل الدین عالی کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا،ڈاکٹرارشد وہرہ

بدھ 16 اگست 2017 16:34

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2017ء) اردو کے لیے باباے اردو اور جمیل الدین عالی کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا، آنے والی نسلیں یقینا اُن کے کام سے مستفید ہوں گی۔ ان خیالات کا اظہار باباے اردو کی56 ویں برسی کے موقع پر ڈپٹی میئر کراچی ارشد عبداللہ وہرہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا۔ انھوں نے کہا کہ انجمن کے صدر ذوالقرنین جمیل، معتمدڈاکٹر فاطمہ حسن، پروفیسر سحر انصاری اور اراکینِ مجلسِ نظما جس ذمے داری اور انتھک محنت سے اس ادارے کو چلا رہے ہیں، وہ قابلِ ستائش ہے۔

اس مشن میں ہم انجمن کے ساتھ ہیں۔ اردو زبان کے لیے کام کرنا ہماری بھی ذمے داری ہے۔ ارشد وہرہ نے کہا کہ انجمن کو باباے اردو نے بچایا تھا، واقعی انجمن جیسی این جی او کو چلانا انتہائی مشکل کام ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جس محنت سے یہاں کام ہو رہا ہے اور انجمن کی نئی عمارت ’’اردو باغ‘‘ کے پہلے مرحلے کو مکمل کیا گیا ہے، میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ میری توجہ ’’اردو باغ‘‘ کے باغ کی جانب دلائی گئی ہے، اس کے لیے سو عدد بہترین پورے آج ہی وہاں پہنچ جائیں گے بلکہ اس کی مکمل دیکھ بھال کی ذمے داری بھی ہماری ہوگی اور میں خود ’’اردو باغ‘‘ کا دورہ کروں گا۔ اس سے قبل ڈپٹی میئر کراچی نے اہلیانِ کراچی کی جانب سے باباے اردو کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔

ان کے ہمراہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد، رجسٹرار صارم برنی، کمشنر کراچی اعجاز خان، انجمنِ اساتذہ عبدالحق کیمپس، اراکینِ سینیٹ ڈاکٹر افتخار احمد طاہر، ڈاکٹر محمد عرفان، نجم العارفین، ڈاکٹر محمد زاہد، پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور دیگر جامعات کے اساتذہ و طلبہ و طالبات کے علاوہ شہر کی سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی فاتحہ خوانی اور گل پاشی کی۔

فاتحہ خوانی کے بعد ڈپٹی میئر نے باباے اردو کی عمارت کا دورہ کیا اور تجویز پیش کی کہ یہاں لائبریری کی بجائے میوزیم بنایا جائے۔ صدرِ انجمن ذوالقرنین جمیل نے کہا کہ ’’اردو باغ‘‘ باباے اردو کے خواب کی تعبیر ہے اور جلد ہی انجمن کا دفتر یہاں منتقل ہوجائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ انجمن نے اس سال 24 کتابیں شائع کی ہیں جو ایک ریکارڈ ہے، اس کے علاوہ انجمن بیرونِ ممالک سے آنے والے اردو دوستوں کے لیے تقریبِ پذیرائی کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں انجمن کا اعزازی صدر ہوں، تمام معاملات ڈاکٹر فاطمہ حسن اور پروفیسر سحر انصاری دیکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں باباے اردو کی یہاں تدفین کے موقع پر عالی جی کے ساتھ موجود تھا، اس وقت میری عمر 12 سال تھی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ پروفیسر سلیمان ڈی محمد نے کہا کہ باباے اردو نے اپنی ساری زندگی اردو کے فروغ کے لیے وقف کردی تھی۔

ہم نے باباے اردو کے مزار اور انجمن کی پرانی عمارت کی تزئین کردی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ڈپٹی میئر کراچی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ انجمن 114 برس سے اپنے فرائض اسی تسلسل سے ادا کر رہی ہے۔ انجمن بہت اہم ادارہ اور اس کا کتب خانہ تاریخ کا اثاثہ ہے۔ ہماری ساری دانش اور علم باباے اردو کے اس ادارے کے ساتھ ہے۔ باباے اردو کے بعد جمیل الدین عالی نے ایک طویل عرصہ اس کی حفاظت کی۔

2014ء میں عالی جی نے اپنی یہ ذمے داری مجھے سونپ دی۔ ارشد وہرہ صاحب آپ انجمن کی سرپرستی کیجیے۔ آپ باباے شہر ہیں، اس وجہ سے آپ کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ ہم نے باباے اردو کی اس پرانی بلڈنگ میں ’’مسند باباے اردو‘‘ قائم کردی ہے اور جلد ہی یہاں لائبریری اور ریسرچ کا کام شروع ہوجائے گا جس کا افتتاح صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین نے کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :