فافن کا پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش انتخابی اصلاحات بل پر تحفظات کا اظہار

،بل میں الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کو مزید بڑھانے کی بجائے محدود کیا گیا ہے انتخابی دھاندلیوں کے اصل ذمہ دار ریٹرننگ افسران کو سزائیں دینے بارے بل خاموش ہے غلط اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے اور کاغذات نامزدگی میں جعل سازی کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا اختیار نہیں دیا گیا انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کے تسلط کو ختم کر نے کیلئے مجوزہ الیکشن بل 2017 میں پائی جانیوالی اہم خامیوں کو دور کرنے کا مطالبہ ،فافن کے عہدیداران کی اسلام آبا دمیں پریس کانفرنس

بدھ 16 اگست 2017 19:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 اگست2017ء) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) نے پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کئے جانے والے انتخابی اصلاحات بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے ،بل میں الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کو مزید بڑھانے کی بجائے محدود کیا گیا ہے، انتخابی دھاندلیوں کے اصل ذمہ دار ریٹرننگ افسران کو سزائیں دینے کے بارے میں بل خاموش ہے ، غلط اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے اور کاغذات نامزدگی میں جعل سازی کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا اختیار نہیں دیا گیا ہے ،فافین نے انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کے تسلط کو ختم کر نے کیلئے مجوزہ الیکشن بل 2017 میں پائی جانیوالی اہم خامیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے بدھ کے روز اسلام آبا دمیں پریس کانفرنس کے دوران فافین کے چیر پرسن سرور باری اور چیف ایگزیکٹیو مدثر رضوی نے کہاکہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو ملک کے تمام سیاسی عناصر کی خواہشات کی عکاس ہو انہوں نے کہاکہ انتخابی بل 2017 سات اگست 2017 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیاہے جس پر ایوان میں بحث ہوگی انہوںنے کہاکہ فافن پارلیمان کی کثیر الجماعتی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی طر ف سے اس بل کو پارلیمانی انداز میں حتمی بنانے کو سراہتا ہے تاہم پچاس سے زیادہ سول سوسائٹی تنظیموں کے اس اتحاد کو پختہ یقین ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل کی مزید شفاف، انتخابی اہلکاروں کو قابل احتساب بنانے اور انتخابی نتائج کو نمائندہ بنانے کیلئے ابھی بھی اس قانون میں مزید بہتری کی گنجائش ہے انہوں نے کہاکہ مجوزہ قانون الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی ڈیوٹی کے دوران بے ایمانی یا کسی کوتاہی کے مرتکب سرکاری اہلکار یا کسی بھی دوسرے شخص کو سزا دینے کا طریقہ کار فراہم نہیں کرتاہے کمیشن کو صرف ایسے اہلکاروں کو فرائض سے ہٹانے یا معطل کرنیکا اختیار تو دیا گیا ہے تاہم اس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ وہ انہیں باضابطہ طور پر سزا دے سکے اگرچہ مجوزہ قانون الیکشن کمیشن کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی عملے کیخلاف انضباطی کارروائی کر سکتا ہے تاہم یہ واضح نہٰن کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ اختیارماتحت عدلیہ سے انتخابی فرائض ادا کرنے والوں پر بھی ہوگاانہوں نے کہاکہ انتخابات کیلئے ریٹرننگ آفیسرز جو کہ عمومی طور پر عدلیہ سے لئے جاتے ہیں اور انتخابات کے دوران اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں پر الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار عطا نہیں کیا گیا ہے اور یہ ریٹرننگ آفیسرز امیداواروں کے کاغذات نامزدگی وصول اور انکی چھان بین، انتخابی عمل کی نگرانی اور ان کے نتائج کو مرتب کرتے ہیںانہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی نے الیکشن کمیشن کا حکومت پر انحصار مزید بڑھا دیا ہے اور الیکشن بل 2017 کی کسی بھی دفعہ پر اثر انداز ہونے میں حکومت کو کوئی دشواری نہیں ہوگی حکومت ان دفعات کو پارلیمان کی طرف بھیجے گی تاہم ایسا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم مہیا نہ کیا گیا ہے اور یہ شق دفعہ 4 ذیلی دفعہ تین سے متصادم ہے جس میں الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ کیلئے جو عمل ضروری سمجھے اسے اٹھائے انہوں نے کہاکہ یہ بل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتخب رکن کی نا اہلیت کے متضاد اختیارات عطا کرتا ہے کمیشن سیاسی جماعتوں اورامیدواروں کو ضابطہ اخلاق کی دوبارہ خلاف ورزی کے علاوہ خلاف ورزی کے مرتکب رکن یا ایسے رکن کو جو خواتین کو ووٹ کے عمل سے باہر رکھنے کے کسی معاہدے کا حصہ ہو کو نا اہل کرنیکا تو اختیار دیتا ہے تاہم لیکن کسی ایسے رکن کو نا اہل کرنیکا اختیار نہیں دیتا جس نے انتخابی اخراجات یا اثاثوں کا جعلی گوشوارہ جمع کرایا ہو انہوں نے کہاکہ انتخابات میں رزلٹ منیجمنٹ سسٹم کے متعارف کرانے سے انتخابی جعلسازی اور بے ضابطگی پر کسی حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم مجوزہ قانون حتمی کامیاب امیدوار کے گزٹ نوٹیفیکیشن سے قبل حتمی نتیجے کی کمیشن کی طرف سے جانچ پڑتال کو یقینی نہیں بناتا ہے اوراسی طرح الیکشن بل 2017 میں خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے چند مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم دیگر پسماندہ طبقات جیسا کہ مذہبی اقلیتوں، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے انتخابی حقوق اور سیاسی شرکت کے حوالے سے تشنگی باقی ہے انہوں نے کہاکہ یہ بل آئین پاکستان کی شق 19 اے میں عطا کئے گئے معلومات کے رسائی کے حق کے حوالے سے بھی مبہم ہے اور اس بل کی شق 195 (سی) انتخابی معلومات کے حصول سے منع کرتی ہے اورایسی شقیں معلومات تک رسائی کے حق کو متاثر کرتی ہیں اور ناقابل قبول ہیں فافن سفارش کرتا ہے کہ ان شقون کو حذف کیا جائے انہوں نے کہاکہ یہ بل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پابند نہیں کرتا کہ وہ ضروری انتخابی دستاویزات بشمول کاغذات نامزدگی، امیدواروں کے انتخابی اخراجات کے گوشوارے، امیدواروں کے اثاثے اور سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کے گوشوارے عوام کیلئے عام کرے انہوں نے کہاکہ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے دیگر بڑے مسائل جن کی طرف پارلیمان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ انتخابی عمل تک ذرائع ابلاغ کی رسائی ہے اس بل میں مشاہدہ کاروں کی انتخابی عمل تک رسائی کا تو ذکر ہے تاہم ذرائع ابلاغ کی رسائی کے حوالے سے یہ مجوزہ قانون خاموش ہے مزید یہ کہ اسی طرح نتائج مرتب کرتے وقت پولنگ سٹیشنز پرگنتی کے دوران مسترد ہونیوالے ووٹوں کو خارج اورنتیجہ مرتب کرتے وقت دوبارہ گنتی کرنیکی درخواست کرنیکی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے جبکہ الیکشن کے دن مہم چلانے اور کنویسنگ کرنے سے بھی منع نہیں کیا گیا اس بل میں مقامی حکومتوں کی مخصوص نشستوں پر الیکشن کا ٹائم فریم بھی مہیا نہیں کیا گیا ہے مزید یہ مشاہدہ کاروں کیلئے دفعہ 238 کے تحت حکومت سے سیکیورٹی کلیرنس کی شرط بھی الیکشن کی نگرانی کرنیوالے گروپوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے انہوں نے کہاکہ الیکشن بل 2017 کا بحث کیلئے پیش ہونا پارلیمان کو نہ صرف اس میں موجود خامیوں کی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ ان وجوہات کو بھی دور کرے جن کے باعث عام انتخابات 2013 کے بعد سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی انہوں نے کہاکہ فافن اس بات پر بھی پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس بل کے نفاذ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اتنا وقت ملے گا کہ وہ اس کے بہتر نفاذ کو یقینی بنا سکے اور سیاسی جماعتیں اور دیگر متعلقین بھی اس کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں تاہم نئے انتخابی فریم ورک میں ضروری ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ مجوزہ اصلاحات مستقبل میں پیش آنیوالے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے کے قابل ہوںانہوں نے کہاکہ پارلیمان سے منظوری کے بعد یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گااور موجودہ صورت میں اسکی منظوری الیکشن کمیشن کیلئے صاف اور شفاف انتخابات کرانے میں کافی دشواریاں پیدا کریگی اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھی انتخابی عمل میں شرکت، نمائندگی اور شمولیت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گے۔

۔۔۔۔۔اعجاز خان