سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کے تسلط کو ختم کر نے کیلئے پارلیمان الیکشن بل 2017 کے نقائص دور کرے ،ْفافن

بدھ 16 اگست 2017 23:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2017ء) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) نے پارلیمان پر زور دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کو بڑھانے، انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانے، نگران حکومتوں کے تقرر کا عمل بہتر بنانے اور سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کے تسلط کو ختم کر نے کیلئے مجوزہ الیکشن بل 2017 میں پائی جانیوالی اہم خامیوں کو دور کیا جائے۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ ایک ایسی قانون سازی جو ملک کے تمام سیاسی عناصر کی خواہشات کی عکاس ہو کو ممکن بنانے کیلئے پارلیمان میں مجوزہ قانون پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ انتخابی بل 2017 سات اگست 2017 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا،اب ایوان اس پر بحث کریگا۔

(جاری ہے)

اراکین پارلیمنٹ کو تجاویز پیش کرتے ہوئے’’ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘‘ کا کہنا تھا کہ اگرچہ فافن پارلیمان کی کثیر الجماعتی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی طر ف سے اس بل کو پارلیمانی انداز میں حتمی بنانے کو سراہتا ہے تاہم پچاس سے زیادہ سول سوسائٹی تنظیموں کے اس اتحاد کو پختہ یقین ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل کی مزید شفاف، انتخابی اہلکاروں کو قابل احتساب بنانے اور انتخابی نتائج کو نمائندہ بنانے کیلئے ابھی بھی اس قانون میں مزید بہتری کی گنجائش ہے، خاص طور پر یہ مجوزہ قانون الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی ڈیوٹی کے دوران بے ایمانی یا کسی کوتاہی کے مرتکب سرکاری اہلکار یا کسی بھی دوسرے شخص کو سزا دینے کا طریقہ کار فراہم نہیں کرتا، کمیشن کو صرف ایسے اہلکاروں کو فرائض سے ہٹانے یا معطل کرنیکا اختیار تو دیا گیا ہے تاہم اس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ وہ انہیں باضابطہ طور پر سزا دے سکے، اگرچہ مجوزہ قانون الیکشن کمیشن کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی عملے کیخلاف انضباطی کارروائی کر سکتا ہے تاہم یہ واضح نہٰن کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ اختیارماتحت عدلیہ سے انتخابی فرائض ادا کرنے والوں پر بھی ہوگا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق فافن رپورٹ میں کہاگیا کہ بل ریٹرننگ آفیسرز جو کہ عمومی طور پر عدلیہ سے لئے جاتے ہیں اور انتخابات کے دوران اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں پر الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار عطا نہیں کرتا، یہ ریٹرننگ آفیسرز امیداواروں کے کاغذات نامزدگی وصول اور انکی چھان بین، انتخابی عمل کی نگرانی اور ان کے نتائج کو مرتب کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ مجوزہ قانون سازی نے الیکشن کمیشن کا حکومت پر انحصار مزید بڑھا دیا ہے اور الیکشن بل 2017 کی کسی بھی دفعہ پر اثر انداز ہونے میں حکومت کو کوئی دشواری نہ ہے، حکومت ان دفعات کو پارلیمان کی طرف بھیجے گی تاہم ایسا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم مہیا نہ کیا گیا ہے، یہ شق دفعہ 4 ذیلی دفعہ تین کے متصادم ہے جس میں الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ کیلئے جو عمل ضروری سمجھے اسے اٹھائے، یہ بل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتخب رکن کی نا اہلیت کے متضاد اختیارات عطا کرتا ہے۔

کمیشن سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے ضابطہ اخلاق کی دوبارہ خلاف ورزی کے مرتکب رکن یا ایسے رکن کو جو خواتین کو ووٹ کے عمل سے باہر رکھنے کے کسی معاہدے کا حصہ ہو نا اہل کرنیکا تو اختیار دیتا ہے تاہم لیکن کسی ایسے رکن کو نا اہل کرنیکا اختیار نہیں دیتا جس نے انتخابی اخراجات یا اثاثوں کا جعلی گوشوارہ جمع کرایا ہو، رزلٹ منیجمنٹ سسٹم کے متعارف کرانے سے انتخابی جعلسازی اور بے ضابطگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم مجوزہ قانون حتمی کامیاب امیدوار کے گزٹ نوٹیفیکیشن سے قبل حتمی نتیجے کی کمیشن کی طرف سے جانچ پڑتال کو یقینی نہیں بناتا۔

اسی طرح الیکشن بل 2017 میں خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے چند مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم دیگر پسماندہ طبقات جیسا کہ مذہبی اقلیتوں، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے انتخابی حقوق اور سیاسی شرکت کے حوالے سے تشنگی باقی ہے۔یہ بل آئین پاکستان کی شق 19 اے میں عطا کئے گئے معلومات کے رسائی کے حق کے حوالے سے بھی مبہم ہے اور اس بل کی شق 195 (سی) جروری انتخابی معلومات کے حصول سے منع کرتی ہے ، ایسی شقیں معلومات تک رسائی کے حق کو متاثر کرتی ہیں اور ناقابل قبول ہیں، فافن سفارش کرتا ہے کہ ان شقون کو حذف کیا جائے، مزید یہ یہ بل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پابند نہیں کرتا کہ وہ ضروری انتخابی دستاویزات بشمول کاغذات نامزدگی، امیدواروں کے انتخابی اخراجات کے گوشوارے، امیدواروں کے اثاثے اور سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کے گوشوارے عوام کیلئے عام کرے۔

متعلقہ عنوان :