معیشت مضبوط نہ ہو تو ایٹم بم بھی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتے،

سیاسی استحکام معیشت کی مضبوطی کا واحد راستہ ہے دوسروں کی جنگیں لڑتے لڑتے ہم نے اپنے معاشرہ کو کھوکھلا کر دیا، ایشیا کے تین حصوں کے سنگم پر واقع ہونے سے ہمارے لئے بے شمار ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے 70 سال جیو پولیٹیکل بیانیہ حاوی رہا اب ہمیں جیو اکنامک بیانیے میں داخل ہونا ہے 60 کی دہائی میں جاپان کے بعد پاکستان کو دوسری ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جاتا تھا وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کا پلاننگ کمیشن کے زیراہتمام پاکستان ڈویلپمنٹ سمٹ اینڈ ایکسپو میں بطور مہمان خصوصی خطاب

جمعرات 17 اگست 2017 19:43

معیشت مضبوط نہ ہو تو ایٹم بم بھی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتے،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اگست2017ء) وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان ایسے دوراہے پرکھڑاجہاں ہمارے فیصلے طرزعمل اور رویے ہماری کامیابی یاناکامی کافیصلہ کریں گے، دنیا میں جن ملکوں نے ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کی اس کے پیچھے پالیسیوں کا تسلسل اور سیاسی استحکام نظر آتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں 90 کی دہائی ، جب ماڈرن اکانومی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ،کو بار بار حکومتوں کی برطرفی کے ذریعے سیاسی عدم استحکام کی نذر کردیاگیا، 70سال میں ایک بھی وزیر اعظم اپنی مدت مکمل نہیں کرسکا، جو ہم ماضی میں کرتے رہے کیا مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے ، سیاسی و جمہوری بے یقینی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، ہماری معیشت ٹیک آف کی پوزیشن پر کھڑی ہے، 2017ء کے پاکستان کا 2013ء سے کوئی موازنہ نہیں کیاجاسکتا، 70سال جیو پولیٹیکل بیانیہ حاوی رہا اب ہمیں جیو اکنامک بیانیے میں داخل ہونا ہے۔

(جاری ہے)

معیشت مضبوط نہ ہوتو ایٹم بم بھی آزادی کی حفاظت نہیں کرسکتے اور معیشت کی مضبوطی کا واحد راستہ سیاسی استحکام ہے۔جمعرات کو یہاں پلاننگ کمیشن کے زیر اہتمام پاکستان ڈویلپمنٹ سمٹ اینڈ ایکسپو میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہاکہ وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کی پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کرکے بہت خوش محسوس کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ 70سالہ سفر کے دوران پاکستان نے بہت سے موڑ دیکھے ہیں ۔اس دوران ہم نے کامیابی بھی حاصل کی ہیں اور بہت سے مواقع ضائع بھی کئے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کی مثال ایک ایسے گلاس کی ہے جسے آدھا بھراہوا بھی قراردیا جاسکتاہے اور آدھا خالی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے آدھا بھراہوا دیکھتے ہیں یا آدھا خالی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم خود پر کم ہمتی اور مایوسی کو غالب کرلیں گے تو یہ ہمیں آدھا خالی نظر آئے گا۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ آج پاکستان ایک دو راہے پر کھڑا ہے جہاں ہمارے فیصلے طرز عمل اور رویے ہمیں کامیابی کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں اور ناکامی سے بھی دو چار کر سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اس 70سالہ سفر کے دوران بہت سے ممالک جو ہم سے پیچھے تھے آگے نکل گئے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کا معرض وجود میںآنا ایک معجزہ تھا۔ 23مارچ 1940ء کو ہمارے بزرگوں نے آزاد وطن کا خواب دیکھا تواسے تعبیر دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی ساز وسامان نہ تھا ، معاشی اور سیاسی لحاظ سے ہم پسے ہوئے تھے، کانگریس غالب تھی اور وہ حکومتیں بنا چکی تھی ۔ اقتدار ان کے ہاتھ میں تھا جبکہ مسلم لیگ کے پاس کوئی طاقت تھی نہ اختیار ، لیکن ہمارے بزرگوں کے عزم و یقین اورمثبت سوچ نے 7سالوں میں ایک ایسے خواب کو تعبیر دی جو ناممکن نظر آتا تھا۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان بننے کے بعد بھی بہت پنڈت اور افلاطون تین سے پانچ سال میں اس کے پکے ہوئے پھل کی طرح ہندوستان کی جھولی میں گرنے کی باتیں کرتے تھے۔ ہمارے پاس نہ صنعت تھی نہ زراعت ، نہ تعلیم نہ انتظامی ڈھانچہ جس کی بنیاد پر اس مملکت کو استوار کیا جاسکتا۔ ایسے حالات میں سفر کاآغاز کیا جب دفاتر میں کاغذ جوڑنے کے لئے کامن پن اور فرنیچر تک نہ تھا اور پاکستان پر لاکھوں مہاجروں کابوجھ بھی آن پڑا تھا۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کے حصے کے وسائل بھی اسے نہیں دیئے گئے لیکن قوم کے حوصلے اور ابتدائی قیادت کی قربانی ، مستقل مزاجی اور جذبوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا اور جس پاکستان کو تین یاپانچ سالوں کی مار کہا جاتا تھا وہ 70واں یوم آزادی شان و شوکت سے منا رہاہے اور انشاء اللہ قیامت تک مناتا رہے گا۔ انہوںنے کہاکہ اس سفر میں ہم نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں ، کئی ممالک ہم سے آگے نکل گئے ، یہ ہماری ناکامی ہے کہ ترقی کی رفتار کو ہم برقرار نہیں رکھ سکے اور نہ ہی مواقع سے بھر پور استفادہ کرسکے۔

انہوںنے کہا کہ 60کی دہائی میں جاپان کے بعد پاکستان کو دوسری ابھرتی ہوئی معیشت قراردیا جاتا تھا۔ حبیب بینک کراچی کی عمارت مشرق میں ایشیاء کی سب سے بلند عمارت تھی پھر دیگر ممالک ہم سے آگے نکلنے لگے ۔ انہوںنے کہاکہ جنوبی کوریا اس کی ایک مثال ہے جس کے وزیر اعظم گزشتہ سال پاکستان آئے تو انہوں نے ہرجگہ اپنی گفتگو میں کہاکہ وہ پاکستان کے اس مدد اور تعاون کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جو پاکستان نے کیا تھا۔

انہوںنے کہاکہ ہم سے نصف برآمدات والے ملک جنوبی کوریا کی آج 570 ارب ڈالر کی برآمدات ہیں جبکہ ہم 22 اور 23 ارب ڈالر پر سرک رہے ہیں۔ سنگا پور سمیت کئی ملک ہم سے آگے نکل گئے ۔ 1990 ء میں ہم نے پھر سے نیا آغاز کرنے کی کوشش کی اور اس وقت کے وزیر اعظم محمد نوازشریف اور وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے پاکستان میں لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کی پالیسیوں کو متعارف کروایا ۔

پاکستان اس وقت جو اصلاحات معیشت کے میدان میں کررہا تھا ان کے حوالے سے من موہن سنگھ پاکستان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتا تھا اور ایس آراوز کی کاپی مانگتے تھے۔ پاکستان اس وقت جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ مستحکم شرح نمو اور مستحکم کرنسی والا ملک تھا ، نئے ایئرپورٹس اور موٹر ویز بن رہے تھے۔ نئی معیشت اور ماڈرن اکانومی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی لیکن 90کی دہائی میں بار بار حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور یہ سارا عشرہ سیاسی عدم استحکام کی نظر کردیاگیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ دنیا میں جو بھی ملک معاشی کامیابی سے ہمکنار ہواہے اس کے پیچھے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل نظر آتاہے ۔ حضرت آدم کے دور سے لے کر آج تک ایک بھی نظیر ایسی موجود نہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کے ساتھ کسی قوم نے ترقی کا ایک زینہ بھی طے کیا ہو ۔ یہ وہ فرق ہے جو باقی ملکوں اور ہمارے درمیان موجود ہے۔

جن ملکوں نے معاشی ترقی کی ان میں پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا ۔ چین میں 1949ء سے ایک پارٹی کی حکومت ہے اور جو بھی سربراہ لایا جاتاہے وہ لمبی مدت کے لئے ہوتا ہے ، جاپان میں 60 سال میں سے 55 سال ایک ہی پارٹی کی حکومت رہی جس میں پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ جنوبی کوریا کی مثال بھی ہمیں ایسی ہی ہے ۔ ملائیشیا میں 22 سال مہاتیر محمد وزیر اعظم تھے ۔

سنگا پور میں لی کو آن یو نے بھی 31 سال تک اقتدار میں رہ کر ملک کو ترقی کے سفر پر ڈالا، انڈونیشیاء میں سہارتو کے تین عشرے ہیں۔ ترکی میں موجودہ حکومت نی20 سال سے پالیسیوںکا تسلسل برقرار رکھا۔ 1947ء سے بھارت میں جمہوریت کا تسلسل ہے ، کانگریس اور بی جے پی کو 10، 10 سال تسلسل سے کام کرنے کا موقع ملا۔ بنگلہ دیش نے بھی اس گر کو جان لیا ہے ۔ 2013ء میں وہ برآمدات میں ہمیں پیچھے چھوڑگئے۔

افغانستان میں حامد کرزئی نے 6 سال پورے کئے اور اشرف غنی اب اپنے 6 سال مکمل کرکے ہم سے آگے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بوجھل دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 70سالوں میں ایک بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف میں کوئی خرابی ہو گی۔ بینظیر میں بھی خرابی ہو گی لیکن جونیجو میں کیا خرابی تھی اور وزیر اعظم جمالی کیوں پانچ سال پورے نہ کرسکے۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی جمہوری بے یقینی بہت بڑاسوالیہ نشان ہے ۔ہمارے مستقبل کا فیصلہ اس پر ہوگا کہ کیا ہم جو ماضی میں کرتے رہے ہیں وہ مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری معیشت ٹیک آف پوزیشن پر کھڑی ہے ۔ پاکستان 2013ء میں کہاں کھڑا تھا ۔ 20، بیس گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی ملک میں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کی وجہ سے خانہ جنگی کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا تھا۔

بجلی نہ آنے کی وجہ سے لوگ بلوے کررہے تھے ۔ ایک وقت کی روٹی کے لئے قتل و غارت تک بات جاپہنچی تھی۔ انتہائی ہوشربا حالات کاسامنا تھا۔ 2013ء میں ہر روز بیس تیس یاچالیس پچاس جانیں دہشت گردی کا نشانہ بنتی تھیں۔ جس روز 10 سے کم لوگوں کی جانیں جاتی تھیں اس دن لوگ شکر ادا کرتے تھے کہ آج کا دن خیر سے گزرا ۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ معیشت کئی سالوں سے سست روی کا شکار تھی اور وہ معاشی ماہرین جوبھارت کو ہندو گروتھ ریٹ کاطعنہ دیتے تھے وہ دگرگوں معاشی حالات کی بدولت اردو گروتھ ریٹ کا طعنہ دینے لگے تھے ۔

2017ء کا پاکستان 2013ء کے پاکستان سے بہت بہتر ہے ۔ 5.3 فیصد کی بلند شرح نمو ، سٹاک مارکیٹ کی بلند ترین سطح کا ماضی سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب سرمایہ کار پاکستان سے کارخانے بند کرکے جارہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ 50 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری میں پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا۔ چار بڑے آٹو میکرز نے پاکستان میں کارخانے لگانے کا اعلان کیا۔

بڑی بڑی یورپی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تو دنیا کو احساس ہواکہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے موزوں ملک ہے اس میں چین کا بنیادی کردار تھا جس نے دنیا کو پیغام دیاکہ پاکستان متروک معیشت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ توانائی کے شعبہ میں 35ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جو قرضہ نہیں ہے نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیاکہ پاکستان کو نئی نظر سے دیکھیں ۔

اس سے پاکستان کا تشخص تبدیل ہوا۔ وہ ملک جو پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ کہہ کرکے معاشی رابطہ نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ سی پیک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور پاکستان اس تبدیلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پاکستان جیو پالیٹیکس کی بجائے جیو معیشت کی طرف بڑھ رہا تھا ، دوسروں کی جنگیں لڑتے لڑتے ہم نے اپنے معاشرہ کو کھوکھلا کردیا۔ پاکستان ایشیا کے تین حصوں کے سنگم پر واقع ہے اور ہمارے لئے بے شمار ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔

تاجکستان، ترکمانستان اور قزاخستان سمیت وسطی ایشیا کے لینڈ لاک ممالک گوادر سے استفادے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو جیو اکنامکس کے راستے پر گامزن کرکے ہم خوشحالی لاسکتے ہیں۔ سلامتی اور سکیورٹی کے تمام راستے مضبوط معیشت سے ہو کرگزرتے ہیں ۔ اگر ہم دشمن ملک سے زیادہ تیزی سے ترقی نہیں کررہے تو ہم دشمن کے خطرے کامقابلہ نہیں کرسکتے۔

70سال میں جیو پولیٹیکل بیانیہ ہاوی رہا اب ہمیں جیو اکنامک بیانیہ میں داخل ہوناہے اور معیشت کے استحکام کواپنا محور بناناہے کیونکہ اگر معیشت مضبوط نہیں تو دنیا جہاں کے ایٹم بم بھی ہماری آزادی کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک مثال روس کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جب اس کی معیشت پنکچر ہوئی تو اس کے ایٹم بم اسے بچا نہیں سکے۔ انہوں نے کہاکہ ملکی سلامتی اور سکیورٹی کا تقاضا ہے کہ معیشت کو مضبوط کیاجائے اور اس کاواحد راستہ سیاسی استحکام کی ہر قیمت پر حفاظت سے وابستہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ متحد ہوکر آگے بڑھنے سے ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح جہاز کو ٹیک آف کرنے کے لئے پوری طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہم سیاسی ، انتظامی ، میڈیا ، عسکری اور سول سوسائٹی سمیت تمام انجنوں کی طاقت اپنی معیشت کو فراہم کریں گے تو پاکستان کو ویژن 2025ء کے اہدف کے تحت دنیا کی 25 بڑی معشتوںمیں شامل کیا جاسکے گا۔

پاکستان کی معیشت جو 2013ء میں لٹی پٹی کھڑی تھی اب اس میں بہتری آچکی ہے اور اب یہ ٹیک آف کے لئے تیار ہے ۔ یہ موقع بھی ضائع کردیا تو قوموں کو بار بار موقع نے ملتے ، 60اور 90 کی دہائیوں میں ملنے والے مواقع سے ہم استفادہ نہیں کرسکے اور اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو قدرت کافیصلہ بہت سخت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اب ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم ایسا کرسکے تو 2047ء تک ٹاپ ٹین معشیتوں میں ہمارا شمار ہو سکتا ہے ۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سقراطی اوربقراطی بننے کے لئے شرط یہ ہے کہ قوم کو بری خبریں سنائی جائیں ، اچھی باتیں اجاگر کرنا گناہ بن چکا ہے لیکن پی ڈبلیو سی جو حکومت پاکستان کا ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی کادبائو ہے نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اس راستے پر گامزن ہے جس پر وہ چل رہاہے تو وہ 2030ء میں ٹاپ 20 مین اکانومیز میںشامل ہوسکتاہے ۔

انہوں نے کہاکہ یہ کامیابی ایک بہت بڑے " اگر " سے مشروط ہے اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم نے اس راستے پر آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے اس توقع کااظہار کیا کہ ہم ایسے فیصلے کریں گے کہ آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔ انہوں نے کہاکہ پلاننگ کمیشن کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار کیا ہے اورہر سطح پرمشاورت اور اشتراک سے پالیسی سازی کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

مستقبل نالج اکانومی اور ٹیکالوجی کا ہے ۔ نئی معیشت کے لئے آج بنیادیں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 4 سالوں میں پلاننگ کمیشن نے 660 ارب روپے بچائے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ روایت برقرار رہے گی۔ قبل ازیں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چئیرمین سرتاج عزیز نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنی ترقی کے سفر کاجائزہ لے کر آئندہ کے لئے اپنے راستے کا تعین کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ معاشی ترقی کے ثمرات مستحق طبقات تک پہنچنے چاہئیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ ویژن2025ء میں انسانی وسائل اور سماجی خدمات میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ اس مقصد کو حقیقی جامہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جو سبق سیکھا ہے وہ جامع اور متوازن سماجی اور اقتصادی ترقی پر مبنی ہے۔منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ بیرون ملک کام کرنے والے 80 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک محنتی اور جفاکش قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ بات قابل فخر ہے کہ آج کا پاکستان دودھ ، کپاس اور چینی پیدا کرنے والے پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی ترقی شعیب صدیقی نے کہا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں اور ان کے ویژن کے تحت وزارت نے ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کیا ۔ انہوں نے اس توقع کااظہار کیاکہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں پلاننگ کمیشن اپنے اہداف حاصل کرے گا۔

متعلقہ عنوان :