سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْفاروق ستار

بلوچستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ،ْعبد القادر بلوچ دھاندلی پر ریٹرننگ آفیسر کے خلاف کیس چلنا چاہیے ،ْ غوث بخش مہر خواتین کیلئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کیلئے کوٹہ مقرر کیا جائے‘ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی بارے بات ہونی چاہیے ،ْ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کا ماحول بہتر رکھا جائے تو باہر کا ماحول بھی بہتر ہوگا‘ ترقی جہاں بھی ہوگی وہ پاکستان کی ہوگی ،ْسید خورشید شاہ

پیر 21 اگست 2017 23:12

سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْفاروق ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اگست2017ء) اراکین قومی اسمبلی نے کہاہے کہ سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْ خواتین کے لئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے بھی کوٹہ مقرر کیا جائے‘ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہیے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں انتخابی بل 2017ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ 342 کے ایوان میں بلوچستان سے ممبران کی تعداد 17 ہے۔

14 براہ راست منتخب ہوتے ہیں ،ْرقبہ کے اعتبار سے بلوچستان پہلے نمبر پر ہے۔ بلوچستان کے حلقے اتنے بڑے ہیں کہ ایک امیدوار پورے حلقے میں مہم نہیں چلا سکتا۔ مجھے اپنے حلقے میں مہم کے دوران 5 ہزار کلو میٹر سفر کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

میری استدعا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ بلوچستان میں ہر ضلع کے لئے ایک نشست مختص کی جائے۔ ہماری باعزت نمائندگی ہوگی۔

بلوچستان جیسے خصوصی علاقوں کے لئے حلقہ کی آبادی میں رعایت دی جائے۔ میرے حلقے میں 30 کلو میٹر کے فاصلے پر پولنگ سٹیشن ہیں۔ بلوچستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی ایجنسی کسی حلقہ کے نتائج تبدیل کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ خلاف رہی لیکن وہ تین بار حکمران بنی۔ اداروں کو اپنا کام کرنے دیں ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے۔

غوث بخش مہر نے کہا کہ بلوچستان سمیت دیگر ایسے علاقے جہاں بڑے حلقے ہیں ان کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ دھاندلی پر ریٹرننگ آفیسر کے خلاف کیس چلنا چاہیے۔ انتخابی بل 2017ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ انتخابی عمل میں وڈیروں‘ جاگیرداروں کا راج ہے‘ جب تک عام آدمی کی دسترس میں یہ انتخاب نہیں آتا منصفانہ انتخاب نہیں ہو سکتا۔

ہمیں جمہوریت کو لوگوں کے در تک لے جانا ہے۔ موجودہ نظام کے تحت کروڑوں روپے خرچ کرنے والا ہی حصہ لے سکتا ہے۔ زرعی ٹیکس جب تک نافذ نہیں ہوگا ایسے ہی لوگ آگے آئیں گے۔ 20 لاکھ آمدنی پر زرعی ٹیکس ہونا چاہیے۔ انکم ٹیکس کا نظام صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ 120 دنوں میں اگر بلدیاتی انتخابات کرانے میں کوئی صوبہ ناکام رہتا ہے تو اس کو بھی سزا دینی چاہیے۔

مقامی نمائندوں کو اختیارات بھی دیئے جائیں۔ ہم نے سیاسی جماعتوں پر اخراجات کی حد مقرر کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترامیم کو اصلاحات کا حصہ بنایا جائے۔ شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ نواز شریف کا وژن ہے کہ پورے پاکستان کو وہ ترقی یافتہ یکھنا چاہیے ہیں۔ اسی وژن کے مطابق تمام صوبوں کے لئے بڑے منصوبے چل رہے ہیں۔ ابھی 25 ارب روپے کا پیکج کراچی کو دیا گیا ہے۔

یہ اعلان نواز شریف نے کیا تھا۔ پانچ ارب کا حیدرآباد کے لئے ہے۔ نواز شریف کا وزیراعظم ترقیاتی پیکج ہے جس کے تحت سڑکیں‘ گلیاں بن رہی ہیں۔ ایک پیکج کے تحت علاقہ کے معززین پر مشتمل کمیٹی تجاویز دیتی ہے۔ ہم نے اس پروگرام کے لئے تمام صوبوں کو خطوط لکھے کہ وہ اس پروگرام کے حوالے سے اپنا حصہ ڈالیں۔ چند ماہ قبل کراچی جاکر ہم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں۔

پنجاب اور بلوچستان کی جانب سے مثبت ردعمل ملا۔ دیگر دونوں صوبے دلچسپی نہیں لے رہے۔پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ انتخابی اصلاحات تین برس کا کام ہے ،ْ آٹھ قوانین کو یکجا کرکے ایک قانون بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس پہلے ہی دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم ترامیم کو اس میں شامل کیا جائے۔ خواتین کو زیادہ براہ راست نشستیں پی پی نے دی ہیں مزید بھی دینی چاہئیں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے پانچ فیصد نشستیں براہ راست خواتین کو دینے کی شق کی مخالفت درست نہیں۔ خواتین کے لئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے کوٹہ مقرر کیا جائے۔ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی پر بھی بات کرنی چاہیے۔ ڈنڈے کے زور پر ووٹ لینے کا سلسلہ ترک کیا جانا چاہیے۔اجلاس کے دور ان اظہار خیال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اخبار میں خبر چھپی ہے کہ ایم این ایز کو 30 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔

اس کی وضاحت آنی چاہیے۔ بعد ازاں وفاقی وزیر شیخ آفتاب کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ ترقی جہاں بھی ہوگی وہ پاکستان کی ہوگی یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ ہم نے اپنے دور میں اپوزیشن کو فنڈز دیئے‘ یہ ان کا حق تھا۔ یہ عوام کے ووٹ لے کر آئے تھے۔ اس ایوان کا ماحول ٹھیک رکھا جائے۔ یہاں ایوان کا ماحول باہر کے حالات کو درست کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز دینے ہیں تو سب کو دیں ورنہ بڑے منصوبے مکمل کرلیں۔