سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْفاروق ستار

بلوچستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ،ْعبد القادر بلوچ دھاندلی پر ریٹرننگ آفیسر کے خلاف کیس چلنا چاہیے ،ْ غوث بخش مہر خواتین کیلئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کیلئے کوٹہ مقرر کیا جائے‘ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی کے حوالے سے بات ہونی چاہیے ،ْ پیپلز پارٹی

پیر 21 اگست 2017 23:34

سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْفاروق ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اگست2017ء) اراکین قومی اسمبلی نے کہاہے کہ سیاسی جماعتوں کیلئے بھی انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی جائے ،ْ خواتین کے لئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے بھی کوٹہ مقرر کیا جائے‘ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہیے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں انتخابی بل 2017ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ 342 کے ایوان میں بلوچستان سے ممبران کی تعداد 17 ہے۔

14 براہ راست منتخب ہوتے ہیں ،ْرقبہ کے اعتبار سے بلوچستان پہلے نمبر پر ہے۔ بلوچستان کے حلقے اتنے بڑے ہیں کہ ایک امیدوار پورے حلقے میں مہم نہیں چلا سکتا۔ مجھے اپنے حلقے میں مہم کے دوران 5 ہزار کلو میٹر سفر کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

میری استدعا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ بلوچستان میں ہر ضلع کے لئے ایک نشست مختص کی جائے۔ ہماری باعزت نمائندگی ہوگی۔

بلوچستان جیسے خصوصی علاقوں کے لئے حلقہ کی آبادی میں رعایت دی جائے۔ میرے حلقے میں 30 کلو میٹر کے فاصلے پر پولنگ سٹیشن ہیں۔ بلوچستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی ایجنسی کسی حلقہ کے نتائج تبدیل کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ خلاف رہی لیکن وہ تین بار حکمران بنی۔ اداروں کو اپنا کام کرنے دیں ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے۔

غوث بخش مہر نے کہا کہ بلوچستان سمیت دیگر ایسے علاقے جہاں بڑے حلقے ہیں ان کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ دھاندلی پر ریٹرننگ آفیسر کے خلاف کیس چلنا چاہیے۔ انتخابی بل 2017ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ انتخابی عمل میں وڈیروں‘ جاگیرداروں کا راج ہے‘ جب تک عام آدمی کی دسترس میں یہ انتخاب نہیں آتا منصفانہ انتخاب نہیں ہو سکتا۔

ہمیں جمہوریت کو لوگوں کے در تک لے جانا ہے۔ موجودہ نظام کے تحت کروڑوں روپے خرچ کرنے والا ہی حصہ لے سکتا ہے۔ زرعی ٹیکس جب تک نافذ نہیں ہوگا ایسے ہی لوگ آگے آئیں گے۔ 20 لاکھ آمدنی پر زرعی ٹیکس ہونا چاہیے۔ انکم ٹیکس کا نظام صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ 120 دنوں میں اگر بلدیاتی انتخابات کرانے میں کوئی صوبہ ناکام رہتا ہے تو اس کو بھی سزا دینی چاہیے۔

مقامی نمائندوں کو اختیارات بھی دیئے جائیں۔ ہم نے سیاسی جماعتوں پر اخراجات کی حد مقرر کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترامیم کو اصلاحات کا حصہ بنایا جائے۔ شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ نواز شریف کا وژن ہے کہ پورے پاکستان کو وہ ترقی یافتہ یکھنا چاہیے ہیں۔ اسی وژن کے مطابق تمام صوبوں کے لئے بڑے منصوبے چل رہے ہیں۔ ابھی 25 ارب روپے کا پیکج کراچی کو دیا گیا ہے۔

یہ اعلان نواز شریف نے کیا تھا۔ پانچ ارب کا حیدرآباد کے لئے ہے۔ نواز شریف کا وزیراعظم ترقیاتی پیکج ہے جس کے تحت سڑکیں‘ گلیاں بن رہی ہیں۔ ایک پیکج کے تحت علاقہ کے معززین پر مشتمل کمیٹی تجاویز دیتی ہے۔ ہم نے اس پروگرام کے لئے تمام صوبوں کو خطوط لکھے کہ وہ اس پروگرام کے حوالے سے اپنا حصہ ڈالیں۔ چند ماہ قبل کراچی جاکر ہم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں۔

پنجاب اور بلوچستان کی جانب سے مثبت ردعمل ملا۔ دیگر دونوں صوبے دلچسپی نہیں لے رہے۔پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ انتخابی اصلاحات تین برس کا کام ہے ،ْ آٹھ قوانین کو یکجا کرکے ایک قانون بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس پہلے ہی دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم ترامیم کو اس میں شامل کیا جائے۔ خواتین کو زیادہ براہ راست نشستیں پی پی نے دی ہیں مزید بھی دینی چاہئیں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے پانچ فیصد نشستیں براہ راست خواتین کو دینے کی شق کی مخالفت درست نہیں۔ خواتین کے لئے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے کوٹہ مقرر کیا جائے۔ دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی پر بھی بات کرنی چاہیے۔ ڈنڈے کے زور پر ووٹ لینے کا سلسلہ ترک کیا جانا چاہیے۔اجلاس کے دور ان اظہار خیال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اخبار میں خبر چھپی ہے کہ ایم این ایز کو 30 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔

اس کی وضاحت آنی چاہیے۔ انتخابی اصلاحات بل 2017ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں نے قائد حزب اختلاف کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ 30 ارب روپے ایم این ایز کو دیئے گئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی بھی ہم سے یہ سلوک نہ کرے۔ انہوں نے انتخابی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیو میٹرک سسٹم کے حوالے سے ہم نے جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر کام کیا لیکن یہ محنت رائیگاں گئی۔

اگر دس کروڑ سمز بائیو میٹرک سسٹم اور تصدیق کے بعد دی جاسکتی ہیں تو یہ کام کیوں نہیں ہو سکتا۔ عارف علوی نے کہا کہ نگرانی حکومت کے حوالے سے ہماری تجویز تھی کہ تمام پارلیمانی سربراہان بیٹھ کر اس کا فیصلہ کریں‘ الیکشن کمیشن پاکستان کی تشکیل نو کی بھی تجویز ہم نے دی۔ ہم نے ہر پولنگ سٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی تجویز دی تھی تاہم صرف حساس پولنگ سٹیشنوں پر یہ لگانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

پرنٹنگ کارپوریشن کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ووٹروں کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی ممانعت درست نہیں ہے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا بل اہم ہے۔ اس بل میں تمام جماعتیں شریک ہیں۔ سب جماعتوں کو کریڈٹ جاتا ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم کو متعارف کرایا جانا چاہیے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے حوالے سے بل میں کچھ شامل نہیں۔

اپوزیشن کو بھی فنڈز دیئے جائیں۔مسلم لیگ (ن) کے رکن محمود بشیر ورک نے کہا کہ انتخابی بل 2017ء میں تمام جماعتیں شامل تھیں۔ وہی جماعتیں اب اس بل کے دفاع کی بجائے اس سے اختلاف کر رہی ہیں۔ محمود بشیر ورک نے کہا کہ قوانین پر عملدرآمد کرنے کے لئے افراد اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ انتخابات تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔

اب الیکشن کمیشن کو اختیارات دینے کی بات کی جارہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن کا عملہ دھاندلی میں ملوث تھا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے تو ڈاک کے ذریعے ووٹ وصول کئے جائیں تاہم بیرون ملک پولنگ سٹیشن بنانے کی تجویز ناقابل عمل ہے۔ 1946ء کے الیکشن میں قائد اعظم نے جس عام آدمی کو ٹکٹ دیا لوگوں نے نظریے کے تحت ووٹ دیئے۔

1997ء اور 2013ء میں لوگوں نے میاں نواز شریف کے نشان شیر کو ووٹ دیا۔ کسی نے جاگیرداروں اور وڈیروں کو نہیں دیکھا۔ لوگ جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں افراد کو ووٹ نہیں دیتے۔ تمام جماعتوں کے ارکان پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہوکر آئے ہیں۔ غیر ضروری بحث نہ کی جائے۔ مل کر تہیہ کریں کہ پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے لوگوں کو ووٹ کا حق دینا چاہیے۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے انتخابی اصلاحات بل 2017ء بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا یہ اہم سوال ہے اس پر بات ہونی چاہیے کیونکہ اس کا تعلق جمہوریت سے وابستہ ہے۔ 70 کے الیکشن میں سیاسی عمل بحال نہیں تھا جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ ہوا۔ بعد کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے۔

2013ء کا الیکشن اس لحاظ سے اہم ہے کہ ہم نے الیکشن کرائے اور انتقال اقتدار کا مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل کیا۔ 2013ء کے الیکشن پر بھی سوالات اٹھے جس کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کمیٹی قائم ہوئی جو بل کے مسودے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اصلاحات کا عمل رکنا نہیں چاہیے۔ آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے ہی حقیقی جمہوریت آئے گی۔ مضبوط جمہوریت کے لئے الیکشن کمیشن کو بھی بااختیار بنا کر ریاست کا چوتھا ستون بنانا ہوگا۔

پہلے صرف ریٹائرڈ جج ہی چیف الیکشن کمشنر لگایا جاسکتا تھا اب ہماری تجویز کے تحت بیورو کریسی سے بھی مقرر ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا ہے تو قواعد بنانے کا بھی اختیار ملنا چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی آئندہ کے لئے بھی برقرار رہنی چاہیے۔ مردم شماری کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے اور نئی مردم شماری کے نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیاں کی جائیں یا پھر قانون میں اس کے لئے روڈ میپ مقرر کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :