پاکستان میں ریاست اب تک انتہا پسندی کے کارکانے چلارہی ہے، افراسیاب خٹک

جب تک یہ جاری رہیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکتی،ملک میں شدت پسندی بڑھنے کی وجہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران جہاد پالیسی ہے،سرتاج عزیز نے آن ریکارڈ کہا کہ طالبان قیادت پاکستان میں بیٹھی ہے ، طالبان کی موجودگی اور کالعدم تنظیموں کے جلسے جلوس نکالنے سے ثابت ہوتاہے کوئی نہ کوئی ان کی سرپرستی کررہاہے ، فوجی حکمرانوں نے سب سے زیادہ قانون توڑا ، سویلینز کا بھی اس میں کردا ہے ،کرپشن بھی ملک میں مارشل لا کی وجہ سے پھیلی ہے، آمریت کے ادوار میں ترقی اور استحکام نام نہادتھا عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا برطانوی نشریاتی ادار ے کو انٹرویو

جمعرات 7 ستمبر 2017 12:09

لندن /پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 ستمبر2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا ہے پاکستان میں ریاست اب تک انتہا پسندی کے کارکانے چلارہی ہے اور جب تک یہ جاری رہیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکتی،ملک میں شدت پسندی بڑھنے کی وجہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دوران جہاد کی پالیسی ہے،سرتاج عزیز نے گذشتہ برس آن ریکارڈ کہا کہ طالبان لیڈرشپ پاکستان میں بیٹھی ہوئی ہے ، طالبان کی موجودگی اور ، کالعدم تنظیموں کے جلسے جلوس نکالنے سے ثابت ہوتاہے کہ کوئی نہ کوئی ان کی سرپرستی کررہاہے ، ملک کی خرابی میں سویلینز نے بھی کردار ادا کیا ہے لیکن فوجی حکمرانوں نے سب سے زیادہ قانون توڑا ہے ،کرپشن بھی ملک میں مارشل لا کی وجہ سے پھیلی ہے، آمریت کے ادوار میں ترقی اور استحکام نام نہادتھا ۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو پاکستان کے قیام کے 70 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کوانٹرویو دے رہے تھے۔ افراسیاب خٹک نے بھی ملک میں شدت پسندی بڑھنے کی وجہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دوران جہاد کی پالیسی کو قرار دیا اور کہا کہ یہاں ریاست انتہا پسند ہوگئی تھی اور اس نے معاشرے کو ریڈیکلائز کیا۔ معاشرہ کیسے ڈی ریڈیکلائز ہوسکتا ہے اگر ریاست ریڈیکلائزیشن کے کارخانے چلاتی رہی انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ریاست اب تک انتہا پسندی کے کارکانے چلارہی ہے اور جب تک یہ جاری رہیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکتی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ ریاست یہ کام کر رہی ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا جیسے طالبان یہاں بیٹھے ہیں، کالعدم تنظیمیں ہیں جو جلسے جلوس کرتی ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ تو ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو ان کا سرپرست ہے۔انھوں نے کہا کہ ان تنظیموں کے خلاف جان بوجھ کر کارروائی نہیں ہورہی اور سیاسی ارادے کی کمی ہے۔

خصوصا پنجاب میں کارروائی نہیں ہوئی جہاں جہادی اور شدت پسندی کے نظریہ دان بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کے مطابق ان عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ پرانی افغان پالیسی چلائیں گے تو اس کے لیے آپ کو نان سٹیٹ ایکٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خاص طور پر پنجاب میں سیاسی مصلحت اور کچھ ووٹ پاکٹ برقرار رکھنے کے لیے بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے۔

تو سیاسی مقاصد کے لیے ملکی مفادات کو دا پر لگا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سرتاج عزیز نے گذشتہ برس آن ریکارڈ کہا کہ طالبان لیڈرشپ پاکستان میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ تو یہ کوئی الزام نہیں تھا بلکہ حکومت کے ایک ذمہ دار شخص نے بات کہی ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے، تو انھوں نے کہا کہ ظاہر ہے اب تک کسی نے اس کی تردید تو نہیں کی۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ ملک کی خرابی میں سویلینز نے بھی کردار ادا کیا ہے لیکن فوجی حکمرانوں نے سب سے زیادہ قانون توڑا ہے۔ سویلینز نے جو خرابی کی ہے اس کے ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ لیکن مارشل لا لگانا سب سے بڑی خرابی ہے، سویلین تو مارشل لا نہیں لگا سکتے۔ لیکن اگر ریاست کے بنیادی قانون کی خلاف ورزی کی جائے تو اس نے لاقانونیت جنم لیتی ہے اور کرپشن بھی ملک میں مارشل لا کی وجہ سے پھیلی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ فوجی حکمران کہتے ہیں کہ ملک نے ڈکٹیٹرشپ میں ترقی کی اور جب بھی سویلنز آتے ہیں وہ صرف لوٹ اور کھسوٹ کرتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وہ یہ بات ٹھیک نہیں کہتے۔ وہ جو نام نہاد ترقی ہے اور وہ جو نام نہاد استحکام ہے اس کے نتائج پر نظر ڈال لیجیے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دس سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ ابھی تک حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ نہیں چھپی، کارگل کے واقعے کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اگر یہ رپورٹیں سامنے آتیں تو جنرل مشرف جیسے لوگوں کو یہ بات کہنے کا موقع نہیں ملتا۔بلوچستان کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے افراسیاب خٹک نے کہا کہ ان کی پارٹی پرتشدد تحریک اور علیحدگی کے حق میں نہیں لیکن بلوچستان میں مظالم بھی ہورہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ جو لاپتہ افراد کا معاملہ ہے، جو لاشیں ملنے کا سلسلہ ہے، حکومتی ادارے اس الزام سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ وہ بلوچستان میں ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ ایسے کئی شواہد موجود ہیں کہ وہ ملوث رہے ہیں۔ اس لیے ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔