پبلک اکائونٹس کمیٹی کاوزارت ترقی و منصوبہ بندی کی نئے اور جاری منصوبوں پر دی جانیوالی بریفنگ پر عدم اعتماد کا اظہار

کمیٹی کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے ‘نئے اسلام آبا ایئرپورٹ کی جانب سڑک منصوبہ پر جو دستاویز میں دو ارب سے زائد خرچ ہوئے ہیں ‘وزارت حکام کہہ رہے ہیں کہ ایک ارب اکیاسی کروڑ روپے خرچ کئے گئے‘ دستاویزات میں غلطی کیوں کی گئی ہے پی اے سی فورم کی حیثیت کا اندازہ لگانا چاہئے،پی اے سی کو وہی جھوٹی خبر دی جارہی ہے جو پارلیمنٹ کو دی پارلیمنٹ سے غلط اعداد و شمار کیسے منظور کروائے گئی آج چار ماہ بعد ہمیں پھرغلط معلومات دی جارہی ہیں ‘ کمیٹی کا وزارت پر برہمی کا اظہار کراچی میں گرین لائن بس ٹرانزٹ سسٹم منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہے ‘منصوبے کی منظوری 2014میں دی گئی تھی ‘ جس پر ابھی تک 60فیصد کام مکمل ہوا ہے ‘اجلاس میں انکشاف فیصد نہیں 35فیصد کا م کیا گیا‘ہر جاری منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘چیئرمین کمیٹی کا معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کیا پی اے سی نے 4اکتوبر کو اجلاس میں وزارت خزانہ، وزارت ترقی و منصوبہ بندی اور وزارت مواصلات کو طلب کر لیا

بدھ 13 ستمبر 2017 16:20

) اسلام آباد (آئی این پی)پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی جانب سے نئے اور جاری منصوبوں پر دی جانیوالی بریفنگ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ۔ کمیٹی نے وزارت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے نئے اسلام آبا ایئرپورٹ کی جانب سڑک منصوبہ پر جو دستاویز میں دو ارب سے زائد خرچ ہوئے ہیں جبکہ وزارت حکام کہہ رہے ہیں کہ ایک ارب اکیاسی کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔

دستاویزات میں غلطی کیوں کی گئی ہے پی اے سی فورم کی حیثیت کا اندازہ لگانا چاہئے،پی اے سی کو وہی جھوٹی خبر دی جارہی ہے جو پارلیمنٹ کو دی پارلیمنٹ سے غلط اعداد و شمار کیسے منظور کروائے گئی آج چار ماہ بعد ہمیں پھرغلط معلومات دی جارہی ہیں اس لئے اجلاس بلایا ہے کہ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو تو درست اعداد و شمار دیئے جاتے جو تفصیلات پی اے سی نے مانگی تھیں وہ لائی ہی نہیں گئیں۔

اجلاس میں انکشاف کیا گیا کراچی میں گرین لائن بس ٹرانزٹ سسٹم منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہے منصوبے کی منظوری 2014میں دی گئی تھی جس پر ابھی تک 60فیصد کام مکمل ہوا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا 60فیصد نہیں بلکہ 35فیصد کا م کیا گیا ۔کمیٹی نے اس معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر جاری منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

پی اے سی نے 4 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں وزارت خزانہ، وزارت ترقی و منصوبہ بندی اور وزارت مواصلات کو طلب کر لیا۔چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہا کہ سیکرٹریز اپنے ساتھ صرف متعلقہ افراد لائیں فوج نہ لائیں۔وزارت حکام نے کمیٹی کوآگاہ کیا کل1022 منصوبے اورجاری منصوبے 582ہیں،536 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں، 420 نئے منصوبے ہیں، منصوبوں کی کل لاگت1318ارب روپے ہے، و وزارتوں کے 1018 منصوبے ہیں جن کے لیے 866 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بدھ کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا اجلاس میں وزارت ترقی و منصوبہ بندی کے پی ایس ڈی پی بجٹ کے حوالے سے وزارت حکام نے بریفنگ دی۔ وزارت حکام کی جانب سے جاری اور نئے منصوبوں کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا۔ پی ایس ڈی پی میں 582 جاری منصوبہ جات میں اور ان پر 536 ارب روپے ان منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

420 نئے منصوبے ہیں اور ان کے لئے 149 ارب روپے ان منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں اور ان کی کل لاگت 1318 ارب روپے ہیں۔ وزارتوں کے 1018 منصوبے ہیں اور ان کے لئے 866 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کمیٹی چیئرمین سید خورشید شاہ نے کہا کہ منصوبوں کی معیاد کا طریقہ کار جو پاکستان میں ہے دنیا میں کہیں نہیں ہے پانچ سے چھ سال منصوبے پر لگائے جاتے ہیں تو لازمی طور پر منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

منصوبوں کی تکمیل کی معیاد کتنی رکھی گئی ہے۔ وزارت حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کسی بھی منصوبے کی تکمیل کی مدت تین سے پانچ سال رکھی جاتی ہے۔ کمیٹی چیئرمین سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارا کام آپ کو بتانا ہے کہ زیر تعمیر منصوبے جلد مکمل کریں وزارت حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ جاری منصوبوں پر چار ہزار پانچ سو ارب روپے لاگت ہے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جاری منصوبوں کو مکمل نہیں کیا جاتا ہے۔

اور نئے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں جاری اور نئے منصوبوں پر ٹوٹل لاگت چھ ہزار ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں کمیٹی رکن شیخ رشید نے کہا کہ 80 فیصد ہسپتال مکمل ہوچکا ہے مگر ابھی تک 20فیصد کام نہیں ہورہا ہے۔ وزارت حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ گرین بس منصوبے کے لئے 6 ارب 84 کروڑ سے زائد رقم رکھی گئی ہے جس پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چار سال میں اب تک 35 فیصد خرچ ہوا۔

سندھ حکومت سے پوچھا جائے کہ آخر وہ کیوں مکمل نہیں کررہے۔ سیکرٹری ترقی و منصوبہ بندی نے کہا کہ ہم منصوبے کیلئے فنڈز جاری کرتے ہیں اور ان پر اخراجات ہماری ذمہ داری نہیں ہے، وزارتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منصوبہ جات کی نگرانی کریں۔ ابتداء میں گرین لائن بس ٹرانزٹ سسٹم کیلئے فنڈز کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ یہ وزارت مواصلات کا منصوبہ ہے اور سندھ حکومت ان کے ساتھ ہے سندھ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔

وزارت مواصلات کی ذمہ داری ہے۔ وزارت حکام نے بتایا کہ اس منصوبے کے کچھ بل باقی ہیں اور اس پر ساٹھ فیصد اخراجات ہوں گئے اور کاغذات میں 35 فیصد اخراجات ہوئے ہیں۔ وزارت مواصلات کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ سات ارب سے زائد اخراجات ہوئے ہیں اور کام زیادہ ہوا ہے کمیٹی نے کہا کہ وزارت کے ذمہ دار بتائیں اس طرح یہ ایجنڈا چھ ماہ چلے گا۔

اس وقت تک اس منصوبے پر بارہ ارب روپے خرچ ہونے چاہئیں۔ وزارت حکام نے بتایا کہ اس پر 13 ارب روپے وزارت مواصلات کو دیئے جاچکے ہیں۔ کمیٹی نے وزارت حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت حکام غلطی کررہے ہیں آج کمیٹی کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے نئے اسلام آبا ایئرپورٹ کی جانب سڑک منصوبہ پر جو دستاویز میں دو ارب سے زائد خرچ ہوئے ہیں جبکہ وزارت حکام نے اس پر جواب دیا کہ ایک ارب اکیاسی کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔

کمیٹی نے کہا کہ دستاویزات میں غلطی کیوں کی گئی ہے پی اے سی فورم کی حیثیت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ پی اے سی کو وہی جھوٹی خبر دی جو پارلیمنٹ کو دی پارلیمنٹ اسے غلط اعداد و شمار کیسے منظور کروائے گئے آج چار ماہ بعد ہمیں غلط معلومات دی جارہی ہیں اس لئے اجلاس بلایا ہے کہ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ آج کے دن تو ہمیں درست اعداد و شمار دیتے جو دستاویزات پی اے سی نے مانگی تھیں وہ وزارت لیکر نہیں آئے۔

سیکرٹری وزارت نے کہا کہ حکام نے محنت کی ہے جس پر کمیٹی نے کہا کہ محنت کہیں ہوئی وہی دستاویزات جو پارلیمنٹ میں جمع کرائے گئے تھے وہی فوٹو سٹیٹ کرکے یہاں جمع کرائے گئے ہیں۔ وزارت خزانہ حکام نے کہا کہ بجٹ مفروضوں پر نہیں بنتا جو کاغذات‘ دستاویزات بھیجے گئے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کو اس ممیں ایک ارب اکیاسی کروڑ روپے درج ہے ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ وزاتوںکے سیکرٹریز اس ملک کے قابل ترین لوگ ہیں اور یہی بریفنگ کسی انٹرنیشنل فورم پر دیتے تو وہ کیا سوچتی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ سیکرٹری وزارت حج پر گئے عبادت کیلئے کام چھوڑ دیا مگر جو لوگ نیچے کام کررہے ہیں ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

وزارتوں کی گئی غلطیاں حکومت اور ریاست کو بھگتنی پڑتی ہیں نظام کو درست کرنا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :