پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں، برکس اعلامیہ ہرگز پاکستان کے خلاف نہیں کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، دہشتگردی کے خلاف سب سے کامیاب جنگیں پاکستان نے لڑی ہیں، برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیہ میں شدت پسند گروپوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جن کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،, پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی بہت مضبوط ہے اور دونوں ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دوہرے معیار پر یقین نہیں رکھتے،, بھارت پاکستان کو بدنام اور تنہا کرنے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہوا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے بیان سے قوم متحد ہوئی ہے اور اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے، اس معاملے پر پارلیمنٹ، حکومت اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا ’’اے پی پی‘‘ کو خصوصی انٹرویو

بدھ 13 ستمبر 2017 21:01

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 ستمبر2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں، برکس اعلامیہ ہرگز پاکستان کے خلاف نہیں کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، دہشتگردی کے خلاف سب سے کامیاب جنگیں پاکستان نے لڑی ہیں۔

’’اے پی پی‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانچ ابھرتی معیشتوں کی تنظیم ’’برکس ‘‘کے حالیہ سربراہ اجلاس کے اعلامیہ میں شدت پسند گروپوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جن کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان شدت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اور پاکستان اس فیصلے کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔

(جاری ہے)

مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی بہت مضبوط ہے اور دونوں ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دوہرے معیار پر یقین نہیں رکھتے۔ مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بھارت پاک چین دوستی پر حاوی ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ اور چائنہ آفس کا اس حوالے سے رابطہ تھا، سب سے اہم بات یہ ہوئی ہے کہ بھارت نے پہلی بار تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جس کو وہ خود فنڈز دیکر پاکستان کیخلاف استعمال کرتا رہاہے، کے خلاف بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے، جو قائم و دائم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوگی، چین نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت سمیت دیگر اہم معاملات میں ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت پاکستان کو بدنام اور تنہا کرنے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ چین کا پاکستان سے بھر پور تعاون اور حمایت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے قوم متحد ہوئی ہے اور اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے، اس معاملے پر پارلیمنٹ، حکومت اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان کہ ’’ہم آئندہ بھی اسی طرح ہی متحد رہیں گے‘‘ ہم سب کیلئے ہمت اور حوصلہ کا پیغام ہے، اب ہماری طرف سے امریکا کیلئے نومور اور دوسرے ڈو مور کریں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ اس وقت آیا جب لوگ کہتے تھے کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، اس وقت چین کے صدر شی جن پنگ پاکستان آئے اور یہاں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ قائد اعظم نے امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کا محور ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ دنیا کی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے اور جو بات 70 سال پہلے قائد اعظم نے کہی تھی، وہ آج آپ کے سامنے ہے اور ہم دنیا کا محور اور مرکز ہیں، اس تمام تناظر میں بھارت کو یہ تکلیف ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے اورمضبوط ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے نئے آپشن کھل گئے ہیں اور ہمارے سفارتی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کو خطہ کے تناظر میں دیکھا جائے، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور یورپ کی65 ممالک کو ایک دوسرے سے منسلک کرے گا اور ان 65 ممالک میں پاکستان ہی واحد ملک ہے جس کا سمندری اور زمینی راستہ چین سے ملتا ہے، اس طرح اس بین الاقوامی منصوبہ میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف سب سے کامیاب جنگیں پاکستان نے لڑی ہیں، 9/11 کے بعد ہمارے 70 ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں جن میں فوجی جوان، عام شہری، بچے اور خواتین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمارا مستقبل جمہوریت سے منسلک ہے اور فوج آئین و قانون کے تحت اپنا کردار نبھا رہی ہے، عام انتخابات آرہے ہیں اور یہ سیاسی قوتوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سیاسی بصیرت کے ساتھ 2018ء تک پہنچتے ہیں، انشاء اللہ موجودہ پارلیمنٹ 2018ء تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ جلد بازی کی ضرورت نہیں، 2018ء میں سب کو موقع ملے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک انگریز نے مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان میں کون انچارج ہے تو میں نے جواب دیا یہاں کوئی ایک انچارج نہیں، ہمارے ادارے انچارج ہیں، فوج کا اپنا رول ہے، پارلیمنٹ کا اپنا ، حکومت کا اپنا اور میڈیا کا اپنا کردار ہے، ہمارے ہاں 50سے زائد آزاد چینلز اور 104ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ہیں، ایک آزاد عدلیہ اور سرگرم سوشل میڈیا ہے، ہماری 207 ملین آبادی میں سے 150 ملین کے پاس موبائل فون ہیں جن میں سے 50 ملین سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور ہر ایشو پر بات کرتے ہیں، یہ ایک مستحکم ملک کی نشانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چار سال پہلے دہشتگردی کا جو حال تھا، وہ آج نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں، سسٹم مضبوط ہے اور لوگوں کی ایک کمٹمنٹ ہے۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے روہنگیا مسلمانوں کیلئے بھی آواز اٹھائی ہے اور امید ہے کہ بنگلہ دیش ان کیلئے اپنی سرحدیں بند نہیں کریگا۔

انہوں نے کہا کہ جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تو ہم نے اپنی سرحد افغانیوںکیلئے کھول دی تھی اور ابھی تک 25 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں، یہ کریڈٹ پاکستان کی قوم اور ریاست کو جاتا ہے کہ ہمارے دروازے کھلے رہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ بنگلہ دیش بھی اپنے دروازے روہنگیا مسلمانوں کیلئے بند نہیں کرے گا۔ انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان، ترکی ملائیشیا، بنگلہ دیش ، ایران، سعودی عرب اور قطر اس حوالے سے مل کر ایک گروپ بنائیں اور اپنا کردار ادا کریں، اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں ایک ڈیلیگیشن کی صورت میں ان سے رابطہ کیا جائے، اس میں غیر مسلموں سے بھی مدد لی جائے کیونکہ انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے میانمار حکومت کا ساتھ دیا ہے جس سے بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ علاقائی امن کے حوالے سے بھارت کے کردار کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے دو چہرے ہیں، وہ چین کے مقابلے میں امریکہ کا آلہ کار بنا رہا ہے، بھارت نے نیپال کا 7 ماہ بائیکاٹ کیا جو ناکام رہا، چین کے ساتھ بھوٹان کے ایشو پر مخالفت کی اور میانمار میں سرجیکل سٹرائیکس کا دعویٰ کیا۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی صورتحال پاکستان کے حق میں ہے اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، 21ویں صدی ایشیا کی ہے جس میں سب سے کلیدی کردار چین کا ہے، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار، ایران، افغانستان سب چین کے ساتھ ہیں، اگر کوئی ملک تنہا ہے تو وہ بھارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا تب تک مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہیں ہوگا۔