اے این پی کی اے پی سی ، فاٹا کے عوام کیلئے آئینی اور جمہوری حقوق کی بھرپور حمایت کا اعلان

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں آئینی طور پر ضم کیا جائے تاکہ وہ صوبے کا حصہ بنے،فاٹا میں ایف سی آر کو ختم کرکے باضابطہ عدالتی نظام قائم کیا جائے،اس کا دائرہ کار پشاور ہائی کورٹ کیا جائے،فاٹا کے عوام کو تمام قانونی‘ آئینی اور بنیادی انسانی حقوق دیئے جائیں،فاٹا کی ترقی کے لئے دس سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے،فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں باضابطہ نمائندگی دی جائے، فا ٹا کے صوبے میں انضمام کے مسئلے پر مزید تاخیری حربوں سے گریز کیا جائے،س سلسلے میں راست اقدام اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ ا علامیہ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن دونوں اطراف پر مزے لے رہیں ، ملٹری آپریشن کے تحت انفرادی دہشت گردی کا حل نہیں نکلا جا سکتا ،ہم چیختے رہے کہ جہاد نہیں فساد ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی فاٹا کو کے پی میں ضم نہ کیا گیا تو مشکلات پیدا ہونگی، انگریز کا قانون فاٹا میں نہ ہوتا تو حکیم اللہ محسود ، بیت اللہ محسود اور عمر خالد خراسانی پیدہ نہ ہوتے، فاٹا کو کے پی میں ضم نہ کیا گیا تو صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کریں گے، قبائلی عوام کواسلام آباد ہائیکورٹ کی بجائے پشاور ہائی کورٹ تک رسائی دی جائے ، فاٹا رکن پارلیمنٹ شاہ جی گل آفریدی فاٹا نے دہشتگردی کے ہاتھوں بڑے زخم کھائے ہیں اسے خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جائے ، خورشید شاہ حکومت پیر پیر سے کام لینا چھوڑ دیں اور فاٹا کو پختونخواہ صوبے میں ضم کیا جائے،نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو بد قسمتی سے پختون سیاسی جماعتیں پختونوں کے حقوق اور فائدے کے لئے کبھی متفق نہیں ہو سکیں،محمود خان اچکزئی قانون اور رواج کو بہانہ بنا کر فاٹا کے انضمام کی مخالفت نہ کی جائے،فرحت اللہ بابر گر فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کرانا ہے تو سب سے پہلے ان کو اپنے گھروں میں آباد کرا دو،فاٹا کے مسلے کو متنازعہ نہ بنایا جائے ، فاٹا میں لینڈ کا کوئی ریکارڈ نہیں ،فضل الرحمان کا اے پی سی سے خطاب

جمعرات 14 ستمبر 2017 16:34

�سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 ستمبر2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس نے فاٹا کے عوام کے لئے آئینی اور جمہوری حقوق کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں آئینی طور پر ضم کیا جائے تاکہ وہ صوبے کا حصہ بنے،فاٹا میں ایف سی آر کو ختم کرکے باضابطہ عدالتی نظام قائم کیا جائے اور اس کا دائرہ کار پشاور ہائی کورٹ کیا جائے،فاٹا کے عوام کو تمام قانونی‘ آئینی اور بنیادی انسانی حقوق دیئے جائیں،فاٹا کی ترقی کے لئے دس سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے،فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں باضابطہ نمائندگی دی جائے، فا ٹا کے صوبے میں انضمام کے مسئلے پر مزید تاخیری حربوں سے گریز کیا جائے،س سلسلے میں راست اقدام اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔

(جاری ہے)

عوامی نیشنل پارٹی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس نے مشترکہ علامیہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آل پارٹی کانفرنس اس بات پر زور دیتی ہے کہ فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے لئے جو انتظامی‘ مالی اور قانونی اقدامات اٹھانا ضروری ہیں حکومت ان پر فوری عمل درآمد کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلی میں مکمل نمائندگی کے لئے راہ ہموار ہوسکے اور 2018 کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ماحول میسر آسکے۔

فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے بروقت ‘ آسان اور مناسب راستہ ی ہی ہے فاٹا کے صوبے میں انضمام کے مسئلے پر مزید تاخیری حربوں سے گریز کیا جائے۔ اگر اس مسئلے پر مزید پس و پیش سے کام لیا گیا تو عوامی نیشنل پارٹی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شریک تمام سیاسی جماعتوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں راست اقدام اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔

لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ ؂ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں آئینی طور پر ضم کیا جائے تاکہ وہ صوبے کا حصہ بنے۔فاٹا میں ایف سی آر کو ختم کرکے باضابطہ عدالتی نظام قائم کیا جائے اور اس کا دائرہ کار پشاور ہائی کورٹ کیا جائے۔فاٹا کے عوام کو تمام قانونی‘ آئینی اور بنیادی انسانی حقوق دیئے جائیں۔فاٹا کی ترقی کے لئے دس سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے۔

فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں باضابطہ نمائندگی دی جائے۔ قبل ازیں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ فاٹا کہ تقدیر بدلنے کے لئے ہم سب اکھٹے ہوئے ہماری پارٹی مطالبہ کرتی ہے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جائے فاٹا نے دہشت گردی کے ہاتھوں بڑے زخم کھائے ہیں ۔ فاٹا رکن پارلیمنٹ شاہ جی گل آفریدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی نشنل پارٹی کی حمایت پر انکا شکر گزار ہیں ۔

انہوں نے کہا فاٹا کو جلد از جلد کے پی میں ضم کیا جاے،فاٹا کو کے پی میں ضم نہ کیا گیا تو مشکلات پیدا ھونگی ۔ قبائیلی عوام نے ملک کی بقا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا فاٹا کی حثیت تبدیل نہ کی گئی تو پورے ملک کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اگر انگریز کا قانون فاٹا میں نہ ہوتا تو حکیم اللہ محسود ، بیت اللہ محسود اور عمر خالد خراسانی پیدہ نہ ہوتے۔

انہوں نے کہا اگر فاٹا کے پی میں ضم نہ کیا گیا تو صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کریں گے دوسری جنگ عزیم میں بھی کسی قوم پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا پچھلے ایک دہائی سے قبائلیوں پر ہو رہا ہے قبائلی آج بھی پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ہم نے فاٹا کے عوام سے ووٹ لیا ہی, اسی لیے ہمیں علم ہے کہ وہ کیا چاہتا ہیں اگر فاٹا رفارمز نہ کی گئی تو ہمارا استقبال اب پتھروں سے کیا جائے گا ۔

شاہ جی گل آفریدی نے کہا قبائلی نہیں چاہتے کہ ان کے علاقے کو علاقہ غیر کہا جائے کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اپنے علاقے کو علاقہ غیر کہا جاتا ہو یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ ہمیں دھمکیا ں دے رہا ہے اتنی قربانیوں کے بعد بھی ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں قبائلی علاقوں کو انضمام نہ کرنا ملک دشمنی ہے۔انہوں نے کہا فا ٹا ریفارمز میں رواج ایکٹ کے تحت قبائلی عوام کے اسلام آباد ہائی کورٹ نا منظور ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کی بجائے پشاور ہائی کورٹ تک رسائی دی جائے ،فاٹا اصلاحات پر عمل در امد کے لیے حکومت کو 9 نومبر تک مہلت دیتے ہیں9 نومبر کے بعد اسلام آباد میں دما دمست احتجاج کریں گے۔

کل جماعتی کانفرنس سے ایم کیو ایم کے رہنما بیرسٹر سیف نے اپنے خطاب میں کہا کہ فاٹا میں اصلاحات لانا وقت کی ضرورت ہے قبائلی عوام کو اپنے تقدیر کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے اگر قبائلی عوام کے امنگوں کے مطابق فاٹا کے تقدیر کا فیصلہ نہ کیا گیا تو خدشہ ہے آنے والے دنوں کوئی نیا بحران شروع ہوجائے سیاست سے بالاتر ہو کر فاٹا کے تقدیر کا فیصلہ کرنا ملک و قوم کے مفاد ہے ۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو نے اپنے خطاب میں کہا کہ فاٹا سے متعلق ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کیا جائے اگر قبائلی نظام بہتر ہوتا تو انگریز اپنے لاگو کرتے قبائیلی ازم کو فاٹا میں اس لئے فروغ دیا گیا تاکہ اس علاقے کا استحصال کیا جائے صوبے میں ضم ہونے سے کوئی کسی کے روایات کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے والافاٹا کے مسلے کو ادھر ادھر جوڑنے کی ضرورت نہیں اس معاملے میں کسی بھی قسم کی مشکلات پیدا کرنے والے قبائیلی عوام سے زیادتی کر رہے ہیں اگر قبائلی پاکستان کے دیگر شہروں میں پاکستان کے قانون کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں تو فاٹا میں کیوں نہیں حکومت پیر پیر سے کام لینا چھوڑ دیں اور فاٹا کو پختونخواہ صوبے میں ضم کیا جائے ۔

محمود خان اچکزئی نے اے این پی کے زیر اہتمام اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے پختون سیاسی جماعتیں پختونوں کے حقوق اور فائدے کے لئے کبھی متفق نہیں ہو سکیں فاٹا کو انتہائی حساس ترین مسلہ سمجھتا ہوں فاٹا کے مسلے کو اتنا آسان نہ لیا جائے 1946 جب پاکستان کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اس میں فاٹا شامل نہیں تھا مہمند، شمالی اور جنوبی وزیرستان ڈیورینڈ لائین کے معاہدے کے بعد تشکیل دے دیے۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ کون نہیں جانتا کہ فاٹا کو بدمعاشوں کا اڈا بنایا گیا انہو ں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی خان اور میں اپنے قبائلی علاقوں میں نہیں جا سکتے لیکن ازبکوں اور عربوں کو آباد کرایا گیا فاٹا میں ہمارے چھوٹے اور بڑوں کو چھن چھن کر مارے گئے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر قبائلی علاقوں پر چڑھائی کی گئی پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا فاٹا میں کوئی اختیار نہیں ایف سی آر کا خاتمہ میں بھی چاہتا ہوں ۔

محمود خان اچکزئی نے فاٹا کے معاملے پر قومی اور بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ پختون دہشت گرد نہیں ہیں محمود خان اچکزئی پختونوں کے تشخص کیلئے کام کرنا ہوگا ۔سینیٹر فرحت اللہ با نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت قبائلی علاقہ پاکستان کا حصہہے یہاں انڈیا ایکٹ 1946کا حوالہ دیا جاتا لیکن پاکستان کے آئین کا حوالہ نہیں دیا جاتا ۔

فرحت اللہ بابر نے کہا فاٹا کے عوام نے خود پاکستان میں شمولیت اختیار کی وہاں کے لوگ جو پاکستان کے شہروں میں رہتے ہیں وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔پاکستانی قوانین فاٹا میں لاگو ہیںملٹری کورٹ بن گئیں فاٹا میں قانون لاگو ہوگیا کسی نے مخالفت نہیں کی،یہ بیانیہ غلط ہے کہ فاٹا کے عوام پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے ۔ فرحت اللہ بابر نے اپنے اظہار خیال میں کہا فاٹا کے عوام نے خود پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا مجھے دکھ ہوا کہ محمود خان اچکزئی نے انڈیا ایکٹ کا زکر کیا کہ فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں , آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت فاٹا پاکستان کا حصہ ہے فاٹا کے عوام کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اسرائیل میں قانون کے تحت لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جا سکتا ہے پاکستان میں فاٹا میں ایف سی آر کے تحت کسی کا بھی گھر مسمار کیا جا سکتا ہے فاٹا کے مسائل کا حل کے پی میں انضمام میں ہی ہیرواج کو بنیاد بنا کر فاٹا کے بھائی بہنوں کے ساتھ ظلم نہ کیا جائے جو لوگ فاٹا سے نکل کر پاکستان کے دیگر علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ پاکستان کے قوانین کی پیروی کر رہے ہیں کسی ایک قبائل کے فرد نے اج تک نہیں کہا کہ ہم پاکستان کے قانون کی مخالفت کرتے ہیں ۔

فرجت اللہ بابر نے کہا قانون اور رواج کو بہانہ بنا کر فاٹا کے انضمام کیمخالفت نہ کی جائے قبائلی علاقوں کے بہنوں اور بیٹیوں نے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا فاٹا میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرتے وقت بھی یہی دلائل دیے جاتے تھے لیکن ہم نے سیاسی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد جوئی خون خرابا نہیں دیکھا قانون نہ ماننے اور رواج کے دلائل جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جہاں بہنوں بیٹیوں کو وراثت نہ دیا جائی, کیا یہ رواج قبائلی بہنوں کو منظور ہی جہاں خواتین کو تعلیم سے روکا جائے کیا وہ رواج قابل قبول ہی جہاں عورت سوارہ بنے اور ووٹ کے حق سے محروم رہے تو یہ رواج قابل قبول نہیں پشاور ہائی کورٹ تمام قبائل ایجنسیوں کے نزدیک تر ہے اس کے باوجود فاٹا کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں لایا جا رہا ہے ایسا لگتا ہی کہ اسلام آباد فاٹا پر اب بھی کنٹرول رکھنا چاہتا ہے جب تک فاٹا ریموٹ کنٹرول ہوگا اس وقت تک یہ اصلاحات سود مند ثابت نہیں ہوگی جب تک اپ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ تصور کریں گے اس وقت تک امن نہیں آسکتا ۔

مولانا فضل الرحمان نے اے این پی کی اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طویل عرصے کے بعد مشکل ماحول کا سامنا کررہا ہوں،قوموں کی زندگی میں بعض دفعہ اہم موڑ آیا کرتے ہیں اس طرح کے حساس موضوعات پر مباحثے ہونے چاہیں جب مباحثے ہوں گے تو اپنا کردار بھی بہتر ادا کرسکیں گے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں ایک بل زیر بحث دوسرے بل کی منظوری خلاف قواعد ہے۔

انہوں نے کہا فاٹا میں چیف اپریٹنگ افیسر کی تعیناتی برائی کی بنیاد تو بن سکتا مسائل نہیں ہوسکیں گے فاٹا پسماندہ نہیں ہے بلکہ اس کو پسماندہ رکھا گیا یہی بات سامنے رکھ کر انضمام کی باتیں ہورہی ہیں فضل الرحمان نے کہا آج قبائل پر برا وقت ہے ہم گھر سے بے گھر ہیں ہماری مائیں بہنیں بچے دربدر پھر رہے ہیں میرا موقف وہی ہے جو قبائل کے جرگے نے پشاور اور اسلام آباد میں اپنایا تھا جب تک فاٹا کے عوام کی رائے نہ ہو کوئی دوسری رائے مکمل نہیں ہے قبائل کو عزت کیوں نہیں دی جارہی ۔

انہوں نے کہا دوہزار بارہ میں کے پی کے اسمبلی نے فاٹا کو ضم کرنے کی قرارداد منظور کی کیا آئینی طورپر صوبہ ایسا کرسکتا ہے قبائلی دربدر ہیں ان حالات سے نکلنے دو پھر ہم سے ہمارے مستقبل کا پوچھوہم نے قبائلی جرگہ کیا مذاکرات کی پشکش کی گئی طالبان نے قبول کرلیا اسلام آباد نے حامی نہیں بھری ہمیں جنگ کے بغیر مسئلہ حل کرنے کی بات کرنے کی سزا دی گئیفاٹا الگ صوبہ ہو کے پی کے میں انضمام ہو سب کی رائے لے لو پھر حتمی فیصلہ کرلوآزادانہ شفاف ریفرنڈم کرالیا جائے محمود خان اچکزئی فاٹا کے حوالے سیجو رائے رکھتے ہیں وہ ان کی اپنی ہے میری رائے مختلف آپشنز پر اتفاق کے حوالے سے ہے فاٹا تک کسی بھی ہائی کورٹ کا دائرہ کار ایک قدم تو ہے حل نہیں مولانا فضل الرحمان نے کہا گر فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کرانا ہے تو سب سے پہلے ان کو اپنے گھروں میں آباد کرا دوفاٹا کے مسلے کو متنازعہ نہ بنایا جائے اسفندیار ولی خان صاحب میرا اپ سے گلہ ہے اسفندیار ولی صاحب ایک 2012 میں آپ نے فاٹا کو متنازعہ بنایا آج ایک بار پھر فاٹا کے مسلے کو متنازعہ بنارہے ہو۔

انہوں نے کہا رواج ایکٹ کے تحت کوئی قانون ہے فاٹا میں لینڈ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ان سب معاملات دیکھنا اتنا آسان نہیں ہے فضل الحق رواج ایکٹ کی کوئی تعریف نہیں جہالت اور سورا کی رسم کوختم کرنا ہو گا فضل الرحمان فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے فیصلہ کیا تو یہ مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا کرے گا ۔اے پی سے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیورینڈ لائن پاکستان کے مستقل سرحد میں تبدیل ہوچکا ہیفاٹا کے عوام کو ہمیشہ غلط استعمال کیا گیاقبائلی عوام کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا سمجھ سے بالاتر بات ہے کہ حکومتی فاٹا ریفارمز پر حکومتی اتحادی اعتراض کر رہے ہیں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن دونوں اطراف پر مزے لے رہیں اپوزیشن میں بھی ہیں اور حکومتی اتحادی بھی ہیں ملٹری آپریشن کے تحت انفرادی دہشت گردی کا حل نہیں نکلا جا سکتا ہم چیختے رہے کہ جہاد نہیں فساد ہے تو بتایا جائے آج رد الفساد کیسے یاد آیا۔