ٹرمپ سے اسرائیلی وزیراعظم کی تیسری ملاقات ،ایران کے معاملے پر تبادلہ خیال ، مسئلہ فلسطین پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی

ٹرمپ نے ایران کو خطے کے مسائل کی جڑ قرار دیدیا ایرانی نیوکلیئر معاہدے کے حوالے سے امریکی موقف فیصلہ کن ہے اور یہ دیگر بڑے ممالک کے مواقف کو بھی تبدیل کر سکتا ہے، ایران کے ساتھ معاہدے سے دست بردار ہوا جائے یا پھر اس معاہدے میں سنجیدہ ترامیم کی جائیں،امریکی صدر کا نقطہ آغاز اسرائیلی نقطہ آغاز کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جب کہ صدر اوباما کی انتظامیہ کے زمانے میں صورت حال اس کے برعکس تھی،امریکی صدر سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو کی صحافیوں سے بات چیت

منگل 19 ستمبر 2017 17:20

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 ستمبر2017ء) ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے تیسری ملاقات کی ہے جس میں ایران کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم اس دوران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تیسری ملاقات تقریبا مکمل طور پر ایران کے معاملے کے لیے مخصوص رہی۔

اس دوران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی جس کے بارے میں ٹرمپ نے ملاقات کے آغاز میں ذکر کیا تھا۔ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکی صدر کا نقطہ آغاز اسرائیلی نقطہ آغاز کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جب کہ صدر اوباما کی انتظامیہ کے زمانے میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔

(جاری ہے)

بات چیت میں ٹرمپ نے ایران کو خطے کے مسائل کی جڑ قرار دیا اور واضح کیا کہ انہوں نے ایران کی جانب سے ان شر انگیزیوں کو روکنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس امر کے عملی اقدامات کی صورت اختیار کرنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی نیوکلیئر معاہدے کے حوالے سے امریکی موقف فیصلہ کن ہے اور یہ دیگر بڑے ممالک کے مواقف کو بھی تبدیل کر سکتا ہے۔نیتنیاہو نے ٹرمپ کو تجویز دی کہ یا تو ایران کے ساتھ معاہدے سے دست بردار ہوا جائے یا پھر اس معاہدے میں سنجیدہ ترامیم کی جائیں۔

ان میں تہران پر پابندیوں میں اضافہ ، بلند شرح کے ساتھ یورینیئم کی افزودگی پر پابندی کی مدت کم از کم 15 برس کرنا ، تہران کے پاس موجود تمام جدید ترین سینڑی فیوجز تباہ کرنا ، تہران سے دور مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو روک دینے کا مطالبہ اور حزب اللہ کے لیے ایران کی مالی اور عسکری سپورٹ روکنے کا عہد شامل ہے۔توقع ہے کہ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم خطے میں تہران کے عسکری پھیلا کے خطرے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔

نیتنیاہو ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں جس کو وہ انتہائی خطر ناک شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایرانی مرشد اعلی علی خامنہ کو براہ راست مخاطب کر سکتے ہیں۔امریکا کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ شام میں ایرانی وجود پر اثر انداز ہونا صرف ماسکو کے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں نیتنیاہو نے پیوتن سے 6 ملاقاتیں کی ہیں۔ اسرائیل نے امریکا اور روس کی جانب سے تل ابیب کے اس مطالبے کو مسترد کرنے پر اپنی ناراضی کو نہیں چھپایا جس میں کہا گیا کہ ایران ، حزب اللہ اور ہزاروں ایرانی جنگجوں کو مقبوضہ گولان سے 60 کلومیٹر دور کیا جائے۔ اسی واسطے نیتنیاہو نے واشنگٹن اور ماسکو کو بھیجے گئے پیغام میں بھی یہ دھمکی دی کہ اسرائیل "شر کو ختم کرنے کے لیے مصر ہے اور وہ حجم میں چھوٹا سا ہے۔

نیتن یاہو کا اشارہ شام میں ایرانی وجود کی جانب تھا۔نیتنیاہو نے عندیہ دیا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے بالخصوص آخری کارروائی جس میں حماہ کے قریب سائنسی تحقیق کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا جو کیمیائی ہتھیار اور طویل مار کے میزائل بھی تیار کرتا ہی.. یہ کارروائیاں اسرائیلی دھمکی کی سنجیدگی ظاہر کرتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد شام میں ایران کو پنجے گاڑنے اور گولان میں لڑائی کا محاذ بنانے کی کوشش سے روکنا ہے۔