ایف آئی اے کے تمام شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے ،

کریمنلز اور انتہائی مطلوب ملزمان کا مرکزی ڈیٹابیس مرتب کیا جائے گا تا کہ انہیں ملک کے کسی بھی حصے میں چھپنے کا موقع مل سکے نہ وہ بیرون ملک فرار ہو سکیں،سائبر کرائمز کے حوالے سے موصول ہونے والی 80فیصد شکایات کی لوگ پیروی نہیں کرتے اور آپس میں صلح کرلیتے ہیں، سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے سائبر پٹرولنگ یونٹ بنائے جا رہے ہیں، قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن کی بریفنگ اجلاس میں کراچی کی جیلوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سب کمیٹی بنانے بارے ارکان میں اتفاق رائے نہ ہوسکا،کمیٹی کا اجلاس کراچی میں منعقد کرنے کا فیصلہ، صوبے کی جیلوں سے متعلق بریفنگ دی جائے گی

منگل 19 ستمبر 2017 19:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 ستمبر2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے بتایا کہ ایف آئی اے کے تمام شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے جبکہ کریمنلز اور انتہائی مطلوب ملزمان کا مرکزی ڈیٹابیس مرتب کیا جائے گا تا کہ انہیں ملک کے کسی بھی حصے میں چھپنے کا موقع مل سکے نہ وہ بیرون ملک فرار ہو سکیں،سائبر کرائمز کے حوالے سے موصول ہونے والی 80فیصد شکایات کی لوگ پیروی نہیں کرتے اور آپس میں صلح کرلیتے ہیں، سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے سائبر پٹرولنگ یونٹ بنائے جا رہے ہیں،کمیٹی رکن سید افتخار الحسن نے بتایا کہ فیس بک پر ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس سے ان کی شہرت کو کافی نقصان پہنچا ہے، تحریری درخواست دینے کے باوجود ایف آئی اے ملزمان کے خلاف کارروائی نہ کر سکی،سندھ کی جیلوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی کراچی میں اجلاس منعقد کرے گی۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس کمیٹی چیئرمین رانا شمیم احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت داخلہ اور وزارت قانون کے افسران سمیت ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن، چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر اور نادرا حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی اجلاس میں کراچی کی جیلوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سب کمیٹی بنانے کے معاملے پر ارکان میں اتفاق رائے نہ ہوا، جس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس کراچی میں منعقد کیا جائے گا، جس میں صوبے کی جیلوں سے متعلق بریفنگ دی جائے گی۔

کمیٹی اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کام کے طریقہ کار کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے، ایف آئی اے کے تمام شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک کیا جائے گا اور مرکزی کنٹرول روم ایف آئی اے ہیڈکوارٹر روم میں ہو گا، انکوائریوں اور کریمنلز کے ریکارڈز کو بھی کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تا کہ کام میں بہتری کے ساتھ ساتھ ریکارڈ میں ردوبدل نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میں شکایات کے اندراج کا پرانا نظام تھا جو تبدیل کیا جا رہا ہے اور شکایات کے نظام کو آن لائن کیا جائے گا،2004میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بھی ایف آئی اے کو کچھ کام دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے بھی نظام میں بہتری لائی جا رہی ہے،سائبر ونگ کو فیس بک اور ای میل سے متعلق موصول ہونے والی 80فیصد شکایات کی لوگ پیروی نہیں کرتے،سائبر پٹرولنگ یونٹ قائم کئے جائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سائبر ونگ کے 31 ملازمین و افسران تنخواہوں سے محروم ہیں، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عملے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ارکان کو بھی تنخواہیں نہ دی جا سکیں اور یہ معاملہ وزارت داخلہ میں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کے تمام ایئرپورٹس سے سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں، ایئرپورٹس پر مسافروں سے اچھا برتائو یقینی بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے، امیگریشن کائونٹرز پر فیڈ بیک باکس رکھے جائیں گے۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات بھی ایف آئی اے نے ہی کی تھی، نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر میں کرپشن سے متعلق سرفراز مرچنٹ نے کچھ انکشافات کئے ہیں۔ اجلاس میں کمیٹی رکن سید افتخار الحسن نے بتایا کہ فیس بک پر ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس سے ان کی شہرت کو کافی نقصان پہنچا ہے، انہوں نے بتایا کہ میں نے ایف آئی اے کو شکایات درج کرائی ہے اور تحریری درخواست بھی دی تاہم ابھی تک ایف آئی اے نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔

کمیٹی رکن سید علی گیلانی اجلاس کے دوران اچانک طیش میں آ گئے اور کہا کہ چار سال سے ہم نے بہت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اب چپ نہیں ہوں گے، ایف آئی اے مجرمان کی سرپرستی کرتی ہے، میں نے ہنڈی کا کام کرنے والوں کو گرفتار کرایا لیکن ایف آئی اے نے رشوت لے کر انہیں چھوڑ دیا۔ کمیٹی رکن شیر اکبر خان نے کہا کہ فاٹا ایف آئی اے کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لئے ایف آئی اے فاٹا میں کاروائیوں سے گریز کرے، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ افسران کو ایک انکوائری کا 153روپے معاوضہ ملتا ہے لیکن اس کے باوجود کرپشن کیسوں سمیت تمام انکوائریاں بروقت مکمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کمیٹی میں مختلف ارکان کے نجی ،ترمیمی بل بھی زیر بحث آئے۔