خیبر پختونخوا حکومت کی دعوت پر قومی مالیاتی کمیشن کے حوالے چاروں صوبوں کے اعلی حکام کا مشترکہ اجلاس

دوسرے صوبوں کے تمام شرکاء نے خیبرپختونخوا کی تمام تجاویز کی توثیق کر دی، وفاقی حکومت سے این ایف سی اجلاس فوری بلانے کی استدعا

منگل 19 ستمبر 2017 22:47

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 ستمبر2017ء) خیبر پختونخوا حکومت کی دعوت پر قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا اجلاس جلدطلب کرنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی غرض سے تمام صوبوں کا طلب کردہ مشاورتی اجلاس خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں منگل کے روزمنعقد ہوا جس کی صدارت خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ نے کی۔

اجلاس میں چاروں صوبوں کی جانب سے اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی ۔ مذکورہ اجلاس میں دوسرے صوبوں کے تمام شرکاء نے خیبرپختونخوا کی تمام تجاویز کی توثیق کرتے ہوئے متفقہ فیصلہ کیا کہ وفاقی حکومت سے این ایف سی اجلاس فوری طورپر طلب کرنے کی استدعا کی جائے اورتسلسل کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے این ایف سی ایوارڈ کے لئے اپنی سفارشات جلد از جلد مرتب کریں تاکہ نئے ایوارڈ کااجراء اگلے مالی سال سے ممکن بنایا جاسکے اوروفاق وصوبائی حکومتیں اپنے اس اہم آئینی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاسکیں۔

(جاری ہے)

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت مزید تاخیر کی بجائے فوری طورپر قومی مالیاتی کمیشن کااجلاس بلائے اورقابل تقسیم محاصل میںصوبوں کا حصہ 80 فیصد رکھا جائے جبکہ 20 فیصد مرکز اپنے پاس رکھے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں صوبوں کودرپیش مسائل اور ضرورت کے مطابق وسائل نہیں مل رہے جس سے صوبوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

انہوںنے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے این ایف سی اجلاس بلانے کا وعدہ صوبوں کے ساتھ پورا نہیں کیا جبکہ اس ایوارڈ کی تاخیر سے وفاق آئین شکنی کامرتکب ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ اجلاس میں باہمی مشاورت کے بعد وفاقی حکومت پر نویں مالیاتی کمیشن کا اجلاس بغیر کیس مزید تاخیر کے جلد بلانے پر زور دیاگیا۔ اجلاس میںسنیٹر سلیم مانڈی والہ نے خیبرپختونخوا حکومت کے مطالبے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ نویں این ایف سی ایوارڈ کااجلاس جلد از جلد منعقد ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔

انہوںنے تجویز دی کہ اگر وفاق اس سلسلے میں کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں اٹھاتاتواس صورت میں تمام صوبے متفقہ طورپر وزیراعظم پاکستان سے درخواست کریں کہ وہ ذاتی طورپر اس معاملے میں اپنا کردار اد اکریں۔ اجلاس میں ممبر این ایف سی پروفیسر محمد ابراہیم نے وفاق کی جانب سے این ایف سی میں تاخیر پر افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ مرکز اس سلسلے میں بلاوجہ تاخیر کوصوبوں کی ذمہ داری قرار دے رہا ہے جو درست نہیں۔

انہوںنے کہا کہ این ایف سی کی تاخیر کی وجہ وفاقی حکومت کی یہ تجویزہے کہ قابل تقسیم محاصل میں 7 فیصد رقم مختص کی جائے جس میں 3فیصد برائے قومی سلامتی فنڈ اور4 فیصد حصہ خصوصی علاقہ جات یعنی فاٹا ،آزاد جمو ں وکشمیر اورگلگت بلتستان کے لئے مختص کیاجائے۔ انہوںنے واضح کیا کہ وفاقی حکومت ان تاخیری حربوں کے ذریعے صوبوں کو بے معنی معاملات میں اُلجھا کر این ایف سی کی تکمیل میں تاخیر پیدا کررہی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں ایک مراسلے کے ذریعے پہلے ہی صدر مملکت سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔

انہوںنے کہا کہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں دیگر صوبائی حکومتوں کی مشاورت کے بعد آئین کے شق 160 جس میں این ایف سی ایوارڈ کے دورانیہ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے پر آئینی راستہ اختیار کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پرغور کررہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ابتدائی چاراین ایف سی ایوارڈز میں صوبوں کا متعین کردہ حصہ 80 فیصد تھا جسے بعد میں کم کرکے 1997 کے ایوارڈ میں 37.5 فیصد کی سطح پرلایاگیا لہٰذا وفاق کا حصہ عمودی تقسیم میں کم کرکے 20 فیصد کی سطح پر واپس لایا جائے اور صوبوں کا 80 فیصد تک بڑھایا جائے تاکہ صوبے اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات خصوصاً اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کی جانب سے صوبوں کو منتقل ہونے والے محکمہ جات پر اٹھنے والے اضافی اخراجات کا بوجھ برداشت کرسکیں جس کا تخمینہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میںنہیں لگایا گیاتھا۔

متعلقہ عنوان :