میئر کراچی المرکز اسلامی کی بحالی کے عدالتی فیصلے پر عمل در آمد یقینی بنائیں ،حافظ نعیم الرحمن

مسجد کی جگہ قائم شادی لان ختم نہ کر نا اور متعلقہ افسران کے خلاف کیس نیب میں نہ بھیجنا توہین عدالت ہے فیصلے پر عمل در آمد نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے ،میئر کراچی کے نام خط

بدھ 20 ستمبر 2017 23:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 ستمبر2017ء) امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مئیر کراچی وسیم اختر کی توجہ فیڈرل بی ایریا میں المرکز اسلامی کی سابقہ دینی حیثیت کی بحالی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرف دلاتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ بحیثیت مئیر کراچی ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر فی الفور عمل در آمد کرائیں ،المر کز اسلامی کو اس کی سابقہ حیثیت میں بحال کریں اور عمارت کو غلط استعمال کر نے کے عمل میں ملوث کے ایم سی کے افسران کے خلاف نیب میں مقدمہ بھیجیں ۔

یہ بات انہوں نے مئیر کراچی کے نام اپنے ایک خط میں کہی ۔خط میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو میں اس بات کو اپنا دینی فریضہ اور قانونی حق سمجھوں گا کہ توہین عدالت کی درخواست عدالت عظمیٰ میں داخل کروں تاکہ نہ صرف خلاف ورزی کے مرتکب افراد قرار واقعی سزا پائیں بلکہ عدالتی احکامات پر بھی عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ KMC اس معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر فوری طور پر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرے گی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عدالتی احکامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اب تک مسجد کی جگہ قائم شادی لان بھی چل رہا ہے اور متعلقہ افسران کے خلاف کیس بھی نیب کو نہیں بھیجا گیا یقینا یہ عدالتی احکامات کی صریحا خلاف ورزی ہے اور توہین کے مترادف ہے۔

خط میں مزید کہا کہ یقینا آپ کے علم میں ہوگا کہ مرکز اسلامی فیڈرل بی ایریا کاقیام 1982میں اس وقت کے میئر عبدالستار افغانی صاحب کے دور میں عمل میں آیا۔ یہ ادارہ چودھویں صدی کے آغاز کے مو قع پر یادگار کے طور پر قائم ہوا اور گورنر سندھ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔سٹی ناظم نعمت الله خان کے دور میں اس کی تکمیل ہوئی تزئین وآرائش کی گئی اور سٹی کونسل کی منظوری سے اس میں قرآن و سنہ ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی اور اس کے بائی لاز بھی منظور ہوئے۔

مگر بد قسمتی سے بعد میںمصطفی کمال کے دور میں بعض افسران نے ملی بھگت کے ذریعہ قطعاً غیر قانونی طور پر اس عمارت کو Funrama نامی کمپنی کو ٹھیکے پردے دیا جس نے Cinipex نامی ادارے کو ٹھیکے پر دیااور اس میں ہر قسم کی بیہودہ فلموں کی نمائش شروع کردی گئی ۔انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ اس مملکت خداداد میں معاملہ یہاں تک پہنچا کہ المر کز اسلامی کی اس عمارت کی پیشانی پر درج کلمہ طیبہ اورچاروں طرف نقش قرآنی آیات کو فلمی پوسٹروں اور دیگر اشیاء کی مدد سے چھپادیا گیا۔

یہ معاملہ انتہائی سنگین نوعیت کا تھا جوتمام دینی شعائر کی توہین کے ضمن میں آتا تھا اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295کی ذیلی دفعات اے ،بی ،سیکے تحت اس پر مقدمات بنتے ہیں۔ اس معاملہ پر میں نے 2016میں بطور امیر جماعت اسلامی کراچی محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھا اور نوٹس لینے کی استدعا کی جس پر از خود کارروائی کرتے ہوئے معزز چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے KMC اور حکومت سندھ سے رپورٹ طلب کی۔

KMC نے اپنی رپورٹ میں معاملہ کے غیر قانونی ہونے کا اعتراف کیاچنانچہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں ملوث افسران کا معاملہ نیب کو بھیجنے کا حکم دیا ۔28-7-2017 کو عدالت میں FunRama اور Cinpex نے معاملات سے دستبرداری اور عمارت کو KMC کے حوالے کرنے کابیان داخل کیا۔عدالت نے دو دن میں اس معاملہ کو نبٹانے اور بلڈنگ کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق استعمال کرنے کا حکم دیا۔ مگر افسوس کے ابھی تک فیصلے پر عمل در آمد کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے علم میں یہ بات بھی لاتا چلوں کہ معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر اس معاملہ کو ہم نے عوامی سطح پر لے جانے سے حتی الامکان گریز کیا ہے کیونکہ امن و امان کی صورت حال پیدا ہوسکتی تھی۔