پیپلزپارٹی سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو چیلنج دیتی ہے کہ وہ وطن واپس آکر بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں عدالتوں کا سامنا کریں ،اسکے ساتھ آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کے مقدمے کا بھی سامنا کریں،

جنرل مشرف قانون اور عدالتوں کے بھگوڑے ہیں اور ان میں یہ ہمت نہیں کہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپنے خلاف مقدمے کا وطن واپس آکر سامنا کر سکیں پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا بیان

جمعہ 22 ستمبر 2017 22:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 ستمبر2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو چیلنج دیتی ہے کہ وہ وطن واپس آکر بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں عدالتوں کا سامنا کریں ،اسکے ساتھ آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کے مقدمے کا بھی سامنا کریں، جنرل مشرف قانون اور عدالتوں کے بھگوڑے ہیں اور ان میں یہ ہمت نہیں کہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپنے خلاف مقدمے کا وطن واپس آکر سامنا کر سکیں۔

جمعہ کو اپنے ایک بیان میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ بزدل آدمی کی نشانی ہے کہ وہ ہاتھ اٹھا کرمارنے کی دھمکی تو دیتا ہے لیکن اس میں مارنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف آصف علی زرداری کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں تین اپیلوں کی سماعت جمعرات کے روز قابل سماعت ہونے کے بعد گھبرا گئے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلزپارٹی کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں پہلے فریق نہیں بننے دیا گیا تھا اور جنرل مشرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کا جرم کبھی بھی بے نقاب نہیں ہوگا اور وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت کے 31اگست کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری متاثر فریق کی حیثیت سے اس مقدمے کے فریق بنے اور اب جنرل مشرف کو انصاف کے کٹہڑے تک لانے تک ان کا پیچھاکریں گے۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جنرل مشرف کو بھگوڑا قرار دے کر ان کا کیس الگ کر دیا تھا لیکن آصف علی زردری کی اپیل کی وجہ سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کا 8مئی کا حکم اور 31اگست کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں آصف علی زرداری کی اپیل منظور ہونے کے بعد ختم ہوگیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جنرل مشرف کو اچھی طرح پتہ ہے کہ زرداری کی جانب سے اس کا پیچھا کرنے کا کیا مطلب ہی اب یہ سابق ڈکٹیٹر جو خود کو کمانڈو کہتا ہے گھبرا گیا ہے۔

جنرل مشرف کی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو یہ دھمکی کہ اگر وہ 2008ء کے انتخابات سے قبل وطن واپس جاتی ہیں تو وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالیں گی اور جنرل مشرف کی جانب سے ان کو سکیورٹی فراہم نہ کرنا اظہر من الشمس ہیں اور ان کی اسی قسم کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ جنرل مشرف کی جانب سے انتہاپسندوں کی طرف سے سرپرستی کرنا بھی دنیا پر عیاں ہے۔

جنرل مشرف جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے روشن خیالی کے دعوے سے دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی لیکن جب وہ اقتدار میں نہیں رہے تو انہوں نے تسلیم کیا کہ اس نے طالبان کی مدد کی تھی۔ جنرل مشرف کو معلوم ہے کہ جلد یا بدیر قانون کے لمبے ہاتھ اس تک پہنچ جائیں گے اور وہ راولپنڈی کے کسی ہسپتال میں پناہ لینے کے قابل بھی نہیں ہوگا۔جنرل مشرف قابل رحم شخص ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قانون قدرت کی نظر میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔