انسانی حقوق کمیٹی کا حنا ربانی کھر دور کی اقوام متحدہ کی رپورٹ ، اغوا کیے گئے افراد پر بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ

کمیٹی کے اغوا کیے گئے افراد کے معاملے پر شدید تحفظات، این اے 120 کے الیکشن میں سیاسی کارکنان کے اغوا ء کا معاملہ سنگین ہے ،ابھی تک مِسنگ پرسن کی تعریف بھی واضح نہیں ، کمیٹی کا لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین اور حکام کی اجلاس میں عدم شرکت پر شدید ناراضگی کا اظہار ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، ورثا ، خاندان ، کسم پرسی کی حالت میں ہیں، کوئی شنوائی نہیں ، امن وامان اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں پر الزام ہے کہ لوگ اٹھائے جاتے ہیں ۔انہی اداروں کو تحقیقات کیلئے کہا جاتا ہے ۔ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا بعد میں تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی پاسداری نہیں کریںگے تو کون کرے گا،چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل دسمبر2016 میں ایوان بالا نے مسود ہ قانون تیار کیا تھا ، لاپتہ افراد کمیشن کی مشکلات کم کرنا چاہتے ہیں، اجلاس میں لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کی عدم شرکت سے بیانیہ کمزور ہورہا ہے ،کمیٹی صرف یہ تفصیلات حاصل کرنا چاہتی ہے کہ کمیشن کی کاکردگی کیا ہے، کتنے مقدمات عدالتوں میں بجھوائے گئے، آگے بڑھنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہے ۔تمام فریقین کے ساتھ اجلاس منعقد ہونا چاہیے،۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر

پیر 25 ستمبر 2017 18:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 ستمبر2017ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں کمیٹی نے حنا ربانی کھر کے دور کی اقوام متحدہ کی طرف سے دی جانے والی رپورٹ اور زبردستی اغوا کیے گئے افراد کے حوالے سے بنائے جانے والے کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا مطالبہ کردیا، کمیٹی نے اغوا کیے گئے افراد کے معاملے پر شدید تحفظات کرتے ہوئے کہا کہ این اے 120 کے الیکشن میں سیاسی کارکنان کے اغوا ء کا معاملہ سنگین ہیں،ابھی تک مِسنگ پرسن کی تعریف بھی واضح نہیں ہے ، کمیٹی کی طرف سے لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین اور حکام کی اجلاس میں عدم شرکت پر شدید ناراضگی کا اظہار ، چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں ورثا ، خاندان ، کسم پرسی کی حالت میں ہیں کوئی شنوائی نہیں ، امن وامان اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں پر الزام ہے کہ لوگ اٹھائے جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہی اداروں کو تحقیقات کیلئے کہا جاتا ہے ۔ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا بعد میں تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی پاسداری نہیں کریں تو کون کرے گا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ دسمبر2016 میں ایوان بالا نے مسود ہ قانون تیار کیا تھا ۔ لاپتہ افراد کمیشن کی مشکلات کم کرنا چاہتے ہیں ۔آج کے اجلاس میں لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کی عدم شرکت سے بیانیہ کمزور ہورہا ہے ۔

کمیٹی صرف یہ تفصیلات حاصل کرنا چاہتی ہے کہ کمیشن کی کاکردگی کیا ہے کتنے مقدمات عدالتوں میں بجھوائے گئے، آگے بڑھنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہے ۔تمام فریقین کے ساتھ اجلاس منعقد ہونا چاہیے۔سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں لاپتہ افراد کے معاملے پرگہری تشویش کا اظہار ،اراکین کمیٹی کی طرف سے لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین اور حکام کی اجلاس میں عدم شرکت پر شدید ناراضگی کا اظہار ، چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں ورثا ، خاندان ، کسم پرسی کی حالت میں ہیں کوئی شنوائی نہیں ، امن وامان اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں پر الزام ہے کہ لوگ اٹھائے جاتے ہیں ۔

انہی اداروں کو تحقیقات کیلئے کہا جاتا ہے ۔ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا بعد میں تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی پاسداری نہیں کریں تو کون کرے گا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ دسمبر2016 میں ایوان بالا نے مسود ہ قانون تیار کیا تھا ۔ لاپتہ افراد کمیشن کی مشکلات کم کرنا چاہتے ہیں ۔آج کے اجلاس میں لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کی عدم شرکت سے بیانیہ کمزور ہورہا ہے ۔

کمیٹی صرف یہ تفصیلات حاصل کرنا چاہتی ہے کہ کمیشن کی کاکردگی کیا ہے کتنے مقدمات عدالتوں میں بجھوائے گئے، آگے بڑھنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہے ۔تمام فریقین کے ساتھ اجلاس منعقد ہونا چاہیے ۔ فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور تمام ادارے لاپتہ افراد کے معاملے پر ناکام ہو چکے ہیں ۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر کمیشن کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات ہیں ، ملوث افراد کی شناخت کے باوجود سزا نہیں دی گئی ۔

کمیشن بعض جگہوں پر ناکام ہوا ہے ۔ این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخابات میں ڈرامائی انداز سے اٹھائے جانے والے افراد کا معاملہ لند ن میں بھی اٹھایا گیا ۔ جس پر سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ این اے 120 سے لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی ہے ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ معاملہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔ سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ پاکستان کو اس معاملے کو خود ہی حل کرنا چاہیے اگر معاملہ اقوام متحدہ تک گیا تو ملک کی بدنامی ہوگی ۔

سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی کسی بھی جرم یا شک میں گرفتار شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنا لازم ہے ۔تین چار سال سے لاپتہ افراد کے لواحقین متواتر کیمپوں میں بیٹھے ہیں جن میں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی شامل ہیں ۔ سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں تمام فریقین سے کمیٹی کی دی گئی ایک ایک سفارش پر جواب لیا جائے ۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 2012 میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ عام کی جائے ۔ حکام نے آگاہ کیا کہ آہستہ آہستہ بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کا عمل شروع ہے اپنے اندرونی حالات اور قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی تک اقوام متحدہ کے کنونشن پر لاپتہ افراد کے حوالے سے دستخط نہیں کیے گئے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مشروط طور پر دستخط کیے جانے چاہییں ۔

حکام نے بتایا کہ لا پتہ افراد کمیشن ایگزیکٹو آرڈر سے بنا قانونی حکم سے نہیں ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قانون سازی اور میکنزم تیار کیا جائے ۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر کمیشن نے بہت آواز اٹھائی ہے جس میں لاپتہ افراد کی فہرست کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ۔ وزارت داخلہ اس معاملے کو دیکھنے کیلئے طریقہ کار وضع کرے ۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ شکایات کے ازالے کیلئے شعبہ قائم کیا جانا چاہیے ۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ کے تحفظ حقوق خواجہ سرابل2017 اور سینیٹر ز روبینہ خالد ، ثمینہ عابد اور کلثوم پروین کے الگ الگ بل موخر کر دیئے گئے ۔ اجلاس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر ، نثار محمد ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، کریم خواجہ ، کلثوم پروین ، ثمینہ عابد، چیئرمین انسانی حقوق کمیشن ، وزارت داخلہ ، خارجہ کے اعلی حکام نے شرکت کی ۔