چیئر پرسن شیری رحمان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس

وزارت پارلیمانی امور کے کردار ، کام کا طریقہ کار ، بجٹ اور ذمہ داریوں کے معاملات کے علاوہ این ای120 میں ضمنی انتخابات میں استعمال ہونے والے بائیو میٹرک طریقہ کار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

منگل 26 ستمبر 2017 21:04

اسلام آباد۔ 26 ستمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 ستمبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت پارلیمانی امور کے کردار ، کام کا طریقہ کار ، بجٹ اور ذمہ داریوں کے معاملات کے علاوہ لاہورکے حلقہ این ای120 میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں استعمال ہونے والے بائیو میٹرک طریقہ کار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سیکرٹری پارلیمانی امور محمدہمایوں نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت پارلیمانی امور 1993 میں وزارت قانون کے ساتھ قائم ہوئی ،2012 میں علیحدہ وزارت پارلیمانی امور قائم کی گئی ۔وزارت کا کام قانون سازی کے طریقہ کار میں معاونت فراہم کرنا ،دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب و موخر کرنے کے علاوہ ، بل متعارف کرنے اور وزیراعظم و صدرِپاکستان سے دونوں ایوانوں سے پاس شدہ بلوں کی منظوری حاصل کرنا ہے ۔

(جاری ہے)

وزارت دونوں ایوانوں میں حکومت کی طرف سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر عملدرآمد کیلئے اقدامات بھی اٹھاتی ہے ۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹریز کی تقرری کے علاوہ الیکشن کمیشن کے بزنس کے حوالے سے قانون سازی بھی کرائی جاتی ہے ۔ 2013 سے اب تک سینیٹ میں 97 حکومتی بل اور 32 پرائیوٹ بل پاس ہوئے جبکہ قومی اسمبلی سی123 حکومتی اور 9 پرائیوٹ بل پاس ہوئے ۔

114ایکٹس بھی پاس ہوئے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ عوامی معاملات اور عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے ونگ بھی وزیراعظم پاکستان کے حکم سے 2013میںقائم کی گئیں جس میں غربا ء کی مالی مدد کے علاوہ پولیس ، جائیداد ، زمین اور خاندانی جھگڑوں کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔ پولیس سے متعلق کیسز کی تعداد زیادہ ہے ۔ مالی سال 2016-17 میں25 ہزار عوامی مسائل کے کیسز ونگ میں پیش ہوئے ، جن میں سے 13 ہزار کیسز کو حل کرایا گیا جبکہ 12 ہزار زیر غور ہیں ۔

وزیراعظم پاکستان نے غریب مریضوں کیلئے ایک گرانٹ بھی قائم کی جس سے گردے ، جگر اور کینسر کے مریضوں کا علاج معالجہ کرایا جاتا ہے ۔غریب مریض درخواست وزیراعظم آفس میں بھیجتے ہیں جس کو اسی دن ڈی سی ، ڈی آئی جی کو بھیج کر مریض کی معاشی حالت چیک کرائی جاتی ہے جس کے بعد شفاء انٹرنیشنل اسلام آباد، شیخ زید ہسپتال اور دوسرے متعلقہ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے بورڈ سے علاج کے خرچ کا تعین کرا کے چیک ہسپتال کے نام جاری کیا جاتا ہے اب تک 340 غریب مریضوں کا 832 ملین روپے سے علاج کرایا جا چکا ہے ۔

چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ وزارت پارلیمانی امور میں بہت اچھا کام ہورہا ہے مگر پارلیمنٹرین اور عام عوام کو اس بارے زیادہ آگاہی حاصل نہیں ہے ۔انہوں نے ہدایت کی کہ سہ ماہی بنیاد پر لوگوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے کیسز اور ان کے تدارک کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے اور جتنے بھی میڈیکل کے کیسز حل ہوئے ہیں ان کی رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔

عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ جمہوری حکومت کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں لاہور کے حلقہ این اے 120 میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں بائیو میٹرک نظام کے استعمال کے حوالے سے ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہے مجوزہ الیکشن ایکٹ 2017 میں بھی یہ شق ڈالی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن EVM اورBVM کا پائلٹ پراجیکٹ کرے گا اور اس کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی تاکہ مناسب قانون سازی کی جاسکے ۔

حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں 39 پولنگ اسٹیشنوں کے 100 بوتھوں پر 100بائیو میٹرک مشینیں تجرباتی طور پر استعمال کی گئیں ۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق 22,181 ووٹرز نے مشینوں کو استعمال کیا ،19,520 ووٹرز کی تصدیق ہوئی جبکہ 2646 ووٹرز کی تصدیق نہیں ہو سکی ۔88 فیصد ووٹرز کی تصدیق ہوئی جبکہ 12 فیصد کی تصدیق نہیں ہو سکی یہ نتیجہ تسلی بخش نہیں ہے ملک میں 9.7 کروڑ ووٹرز ہیں اگر پورے ملک میں مشینیں استعمال کی جائیں تو 1.16کروڑ ووٹرز کی تصدیق بائیو میٹرک مشین سے نہیں ہو سکے گی یہ بات بھی قابل ذکر ہے حلقہ این اے 120 میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے پسماندہ علاقوں میں مسئلہ بڑھ بھی سکتا ہے ۔

یہ مشینیں پاکستانی کمپنی سے صرف الیکشن کمیشن کیلئے تیار کرائی گئیں تھیں ۔قائمہ کمیٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی جو کہ ہالینڈ کی ایک کمپنی نے تیار کی تھیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مشینوں کی بڈنگ بین الاقوامی سطح پر کی گئی تھی ۔قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں دونوں پرائیوٹ کمپنیوں کو تفصیلا ت کیلئے طلب کر لیا ۔

ایک مشین پر ووٹ کی تصدیق کا عمل 15 سی18 سیکنڈ میں ہو جاتا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا کہ پورے ملک کیلئے 90 ارب روپے کی الیکٹرانک اوربائیومیٹرک مشینیں درکار ہونگی ، 26 اکتوبر2017 کو NA-4 میں بھی یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جائیں گی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حلقہ این اے 120 میں کالعدم تنظیم کے نمائندہ کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی نشان الاٹ ہونے پر سخت برہمی کااظہار کیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک آزاد نمائندے نے یہ انتخابی نشان حاصل کیا تھا جس پر چیئرپرسن کمیٹی اور رکن کمیٹی سیف اللہ خان مگسی نے کہا کہ پوسٹر اور بینرز پر واضح کالعدم تنظیم کے رہنمائوں کی تصویریں آویزاں کر دی گئی تھیں جس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی بھی ہوئی الیکشن کمیشن کا کام تھا کہ اس کے خلاف ایکشن لیتا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے قانون میں اس حوالے سے کسی ترمیم کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ کو پیش کی جائے آئندہ اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر معاملے کی تفصیلی وضاحت کریں کہ کالعدم تنظیم کے نمائندے کو انتخابی نشان کیوں الاٹ کیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مولانا تنویر الحق تھانوی ، سلیم ضیاء ، گل بسرا اور نوابزادہ سیف اللہ مگسی کے علاوہ سیکرٹری پارلیمانی امور ، جوائنٹ سیکرٹری پارلیمانی امور ، ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن آف پاکستان کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :