ترجمان پاک فوج نے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا ء کا امکان مسترد کردیا

ملک میں کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں آرہی ، جو سسٹم چل رہا ہے اسے چلتے رہنا چاہیے،جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں،جمہوریت کو جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے خطرہ ہوسکتا ہے ،احسن اقبال کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا،اپنے الفاظ پر قائم ہوں آئین کے مطابق بات کی ،میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے ،ملکی معیشت پر جو کہا وہ سیمینار کا حصہ تھا،کوئی بھی کام آئین وقانون سے بالاتر نہیں ہوگا،ہر وہ کام کریں گے جو آئین و قانون کے مطابق ہوگا،اگر سیکورٹی اچھی نہیں ہوگی تو معیشت کیسے چلے گی ،ملکی ترقی کیلئے جمہوریت کا چلنا ضروری ہے،ہم نے اپنے ملک میں بہت کچھ کرلیا اب ڈومور کی مزید کوئی گنجائش نہیں،ملک میں کوئی نوگوایریا نہیں ہے،امریکا یا کسی اور ملک کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن پاکستان میں نہیں ہوگا،امریکا کے ساتھ سیکیورٹی تعاون رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، سیکیورٹی سے متعلق ہماری امریکیوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، ہم نے امریکا سے ملنے والی انٹیلی جنس معلومات پر کرم ایجنسی میں آپریشن کیا، امریکی سفیر نے ہم سے مغویوں کی بازیابی کے لیے مدد مانگی،ہماری ترجیح تھی کہ یرغمالیوں کو بحفاظت نکال لیا جائے ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس

ہفتہ 14 اکتوبر 2017 22:50

ترجمان پاک فوج نے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا ء کا امکان مسترد ..
راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 اکتوبر2017ء) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا کا امکان مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں آرہی ،جو سسٹم چل رہا ہے اسے چلتے رہنا چاہیے،جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں،جموریت کو جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے خطرہ ہوسکتا ہے ،احسن اقبال کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا،اپنے الفاظ پر قائم ہوں آئین کے مطابق بات کی ،میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے ،ملکی معیشت پر جو کہا وہ سیمینار کا حصہ تھا،کوئی بھی کام آئین وقانون سے بالاتر نہیں ہوگا،ہر وہ کام کریں گے جو آئین و قانون کے مطابق ہوگا،اگر سیکورٹی اچھی نہیں ہوگی تو معیشت کیسے چلے گی ،ملکی ترقی کیلئے جمہوریت کا چلنا ضروری ہے،ہم نے اپنے ملک میں بہت کچھ کرلیا اب ڈومور کی مزید کوئی گنجائش نہیں،ملک میں کوئی نوگوایریا نہیں ہے،امریکا یا کسی اور ملک کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن پاکستان میں نہیں ہوگا،امریکا کے ساتھ سیکیورٹی تعاون رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، سیکیورٹی سے متعلق ہماری امریکیوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، ہم نے امریکا سے ملنے والی انٹیلی جنس معلومات پر کرم ایجنسی میں آپریشن کیا، امریکی سفیر نے ہم سے مغویوں کی بازیابی کے لیے مدد مانگی،ہماری ترجیح تھی کہ یرغمالیوں کو بحفاظت نکال لیا جائے۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھاکہ میری میڈیا کے حضرات سے جو آخری ملاقات ہوئی اس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی جس میں سرحدی امور اور آرمی چیف کے افغانستان کے دورہ بارے بات ہوئی اس کے علاوہ امریکہ کے 3اعلی سطحٰی وفد آئے تھے ان کے ساتھ حکومت کی اور ہماری سیکیورٹی کی سطح پر بات چیت ہوئی اس کے ثمرات اگر آپ دیکھنا شروع کریں تو ایک طرف نئی ا مریکی پالیسی آئی تھی اس کے بعد مصروفیت شروع ہوئی تھی، حکومتی سطح میں بھی آپ نے وہ سارے بیانات دیکھے ہوں گے اور آرمی چیف کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی تو ہماری لائن یہ تھی کہ پاکستان نے پچھلے 15سال کے عرصہ میں اور خاص طور پر پچھلے 7سے 8سال کے عرصے میں اپنے ملک کی سیکیورٹی کیلئے بہت اقدامات کئے اور ہم نے اچھے نتائج بھی حاصل کئے، ہم پاکستان کے اندر وہ سٹیج لے کر آ گئے ہیں جہاں کوئی نوگوایریا نہیں ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ اعتماد کی فضاء میں دونوں ممالک آگے بڑھ سکتے ہیں، تعاون کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، امریکی حکام نے خفیہ اطلاعات دیں کہ اغفانستان سے امریکی مغوی خاندان کو پاکستان منتقل کیا گیا ہے، 4بجے امریکی سفارتکار نے جی ایچ کیو میں رابطہ کیا، ہم نے اطلاعات کی بنیاد پر جوانوں کو اس علاقے میں بھیجا اور ان کی گاڑی کو ٹریس کیا، پہلی ترجیح ہماری مغویوں کی حفاظت تھی، اس لئے انتہائی احتیاط سے آپریشن کیا گیا، اغواکار 2 گاڑیوں میں سوار تھے، فائرنگ کرکے ان کی گاڑیوں کے ٹائربرسٹ کئے، جس پر دہشت گرد گاڑیاں چھوڑ کر افغان مہاجرین کے قریبی کیمپوں میں گھس گئے۔

اگر آپ کے پاس کچھ دستاویزات ہیں اور آپ مہاجرین کے کیمپ میں چلے جائیں تو دہشت گرد کی شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کا واپس جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ امریکی قیادت نے اس آپریشن کا خیر مقدم کیااور ہم پر بھروسہ کیا، اس تعاون سے بات سامنے آئی کہ ہم پروہ کام جو پاکستان اور علاقے کے مفاد میں ہو گا، ہم نے اپنے ملک میں بہت کچھ کرلیا ہے، اب ہمارے پاس ڈومور کی گنجائش نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بازیاب کرائے گئے کینیڈین خاندان کے سربراہ کا ویڈیو کلپ بھی چلایا جس میں انھوں نے پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پاک فوج انتہائی پروفیشنل ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ سیکیورٹی مفادات کا خیال رکھ کر چلنا پڑے گا ، اعتماد کی بنیاد پر تعلقات آگے بڑھتے ہیں ، ان معاملات میں مزید بھی بہتری آئے گی،کسی ملک کے ساتھ ، مشترکہ آپریشن پاکستانی زمین پر کبھی نہیں ہوگا ۔

انھوں نے کہاکہ معیشت پر جو سیمینار ہوا اس میں آرمی چیف نے مرکزی خطاب کیا، کہا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ، احسن اقبال کے اس بیان پر مجھے دکھ ہوا ، ایک سپاہی اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں نے کہیں نہیں کہا کہ پاکستانی معیشت گر گئی ہے ، ہمارے سب اداروں نے کام کیا،میں نے یہ کہا کہ کام مل بیٹھ کر کر نے ہیں ، اگر سیکیورٹی اچھی نہیں ہوگی تو معیشت کیسے چلے گی ، آرمی چیف نے کانفرنس شرکاء سے بھی کہا کہ آپ کا بھی کام معیشت مضبوط کرنے کا ہے ، پاکستان میں ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے ،میں اپنے بیان پر قائم ہوں ، ہر شہری کو آئین کے اندر بات کرنے کا حق ہے ، یہاں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا ،میں آرمی کا ترجمان ہوں ،میری بات میری انفرادی بات نہیں ہوتی ، میری تجویز ملک کی بہتری کیلئے تھی ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ پاک فوج ہر ادارے کے ساتھ مل کر کام کرے گی،آئین اور قانون کے اندر رہ کر ہر کام کریں گے، کوئی ادارہ اکیلا کام نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ پاک فوج سے جمہوریت کوخطرہ نہیں ہے، جمہوریت کو اگر خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے ہو سکتا ہے، کوئی ایسا کام نہیں ہو گا جو آئین اور قانون سے بالاتر ہو۔

میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ ملک میں کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت نہیں آرہی، حکومت کا ترقی کیلئے چلنا ضروری ہے، سویلین بالادستی ہی ملک میں ہے، سندھ میں رینجرز کا آپریشن حکومت کی مرضی سے ہوتا ہے، پنجاب میں رینجرز کا آپریشن ، آپریشن راہ راست، ضرب عضب ،تمام آپریشنز حکومتوں کی اجازت کے بعد شروع کئے گئے، یہ سب سویلین بالادستی ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے ادارے ملکر کام کرتے ہیں اور فیصلے حکومت کرتی ہے، جنگ کا طریقہ کار بدل گیا ہے جس میں سوشل میڈیا بھی استعمال ہو رہا ہے، دنیا کے ہر ملک میں اختلافات ہوتے ہیں، جب پاکستان کی بات آتی ہم ایک ہیں، ہماری سب کی ذمہ داری بنتی ہے، خاص کر میڈیا کا بڑا کردار ہے، ملکی ترقی اور استحکام کیلئے متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہاکہ اگر امریکی خفیہ اطلاع پر آپریشن کسی ڈیل کا نتیجہ ہوتا تو سب آپ کے سامنے ہوتا، یہاں وہ قوتیں آتی ہیں جو پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنا چاہتی ہیں، ہم نے آپ کو آپریشن کی تفصیلات بھی دیں، کیپٹن صفدر کے بیان پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، فوج ایک بڑا ادارہ ہے جس میں ایک نظام ہے، سختیوں کے ساتھ کچھ نرمیاں بھی ہوتی ہیں،لیفٹیننٹ جنرل رضوان ڈی جی آئی ایس آئی تھے، ان کو ذاتی مصروفیات تھیں اور انہوں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دی، فوج میں ہر سال افسران ریٹائر ہوتے ہیں اور ترقیاں ہوتی ہیں، اس لئے اس معاملے پر کسی قسم کے بیان سے گریز کریں، ہم اگر کوئی تجویز دیں اور حکومت نہ مانے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، فیصلے وزیر اعظم لیتے ہیں اور کئی تجاویز دی جاتی ہیں، مختلف حلقوں کی جانب سے معیشت پر بھی اپنی تجاویز دی جاتی ہیں، آرمی چیف نے بھی صرف اپنی تجاویز دیں، ہر شہری تجاویز دے سکتا ہے، آرمی چیف کے کانفرنس میں جانے سے تاجروں کا اعتماد بحال ہوا، معیشت کی صورتحال کو ہم نے مزید بہتر کرنا ہے، ہم ترقی کر رہے ہیں، اس لئے بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے، ہم ایک قوم ہیں، اس پرکوئی دورائے نہیں ہے۔