ہم پر تنقید کے نشتر چلانے والے ایم کیو ایم کی گود میں جا بیٹھے، اسفند یار ولی

احتساب عدالت کا واقعہ قابل مذمت ہے، ن لیگ نے اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہ کیا تو نقصان جمہوریت کا ہوگا پرویز خٹک کو صوبے سے کوئی غرض نہیںاور صرف ایک وزارت اور اقتدار کے لیے کسی بھی پارٹی سے غداری کر سکتے ہیں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ، سرکاری خزانہ خالی ہے ، حکمرانوں نے اپنے اللوںتللوں کے لیے مالیاتی اداروں سے ریکارڈ قرضے لے کر عوام پر بوجھ ڈالا، جلسے سے خطاب

اتوار 15 اکتوبر 2017 20:30

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 اکتوبر2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ ہم پر تنقید کے نشتر چلانے والے صرف اپوزیشن لیڈر کی ایک کرسی کے لیے اس ایم کیو ایم کی گود میں جا بیٹھے جس کی مخالفت میں وہ آخری حد تک جا چکے تھے اور ایم کیو ایم کے خلاف لندن کی عدالتوں تک کیس کرنے کی دعوے کیے جاتے تھے، احتساب عدالت کا واقعہ قابل مذمت ہے، ن لیگ نے اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہ کیا تو نقصان جمہوریت کا ہوگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے این اے 4کے انتخابی مہم کے سلسلے میں کوہ دامان متنی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین، این اے 4کے امیدوار خوشدل خان ایڈوکیٹ، ارباب محمد طاہر خان خلیل اور دیگر رہنما?ں نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اسفندیار ولی خان نے کہا کہ صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، سرکاری خزانہ خالی ہے اور صوبے کے معاملات اور حکمرانوں نے اپنے اللوںتللوں کے لیے مالیاتی اداروں سے اتنا قرضہ لیا ہے جو صوبے کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں لیا۔

انہوںنے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان قرضوں کو چکانے کے لیے آنے والی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کہ صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو صوبے سے کوئی غرض نہیںاور صرف ایک وزارت اور کرسی اقتدار کے لیے کسی بھی پارٹی سے غداری کر سکتے ہیں۔ عمران کے گزشتہ روز کے بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسفندیار ولی خان نے کہا کہ جو شخص دو مرتبہ اپنا گھر نہیں بچا سکا وہ ملک کو کیا بچائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف ولی خان سے صوبے کے حوالے سے وعدہ کرکے مکر گئے تھے تو انہیں جدہ بھاگنے کی ضرورت پڑی اور اس مرتبہ انہوں نے پختونوں کے ساتھ سی پیک پر وعدہ خلافی کی تو پختونوں کی بدعا?ں کی بدولت انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک بلا شبہ گیم چینجر منصوبہ ہے تاہم مرکزی و صوبائی حکومت یہ بتائے کہ سی پیک میں پختونخوا کا کتنا حصہ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ سی پیک میں ایک سڑک باجوڑ اور قبائلی علاقوںسے ہوتی ہوئی جنڈولہ تک اور پھر ڑوب تک جائے اور اس میں دیر اور چترال کو بھی سی پیک کا حصہ بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ مغربی اکنامک کوریڈور میں انڈسٹرئیل زون کہاں واقع ہی کئی بار اس حوالے سے پوچھا گیا لیکن کوئی نہیں بتا رہا۔ ملک کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک بات واضح ہو جانی چاہئے کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی طرف سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت میں گزشتہ روز وکلائ کی جانب سے جو ہلڑ بازی کی گئی وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

ن لیگ نے اگر اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہ کیا تو اس سے جمہوریت کو نقصان ہوگا اور اس کا فائدہ کسی سیاسی جماعت کو نہیں ہوگا۔ مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے آرمی چیف کے کراچی میں دیئے گئے بیان کا خصوصی طور پر ذکر کیااور کہا کہ آرمی چیف اور 1980ء میں ولی خان کے بیان میں جومماثلت پائی جاتی ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک کی تمام قوتیں باچاخانی چاہتی ہیں۔

انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ امید کی ایک نئی کرن نظر آنے لگی ہے اور مذاکرات کا آغاز خطے کے امن کی جانب پہلا قدم ہوگا، ہمارا روز اول سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دورکرنے کی ضرورت ہے اور آرمی چیف کا دورہ کابل اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

اسفندیار ولی خان نے کہا کہ گزشتہ الیکشن میں ہمارا مینڈیٹ چھینا گیا لیکن 26اکتوبر کے ضمنی الیکشن اور آئندہ عام انتخابات میں اپنا منڈیٹ واپس حاصل کریں گے، ضمنی الیکشن میں ہماری کامیابی یقینی ہے اور خوشدل خان ایڈوکیٹ کو اسمبلی میں پہنچا کر یہ ثابت کریں گے کہ این اے 4 باچا خان کے پیروکاروں کا حلقہ ہے۔ انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ وہ رابطہ عوام مہم میں مزید تیزی لائیں۔