آرمی چیف کو معیشت پر رائے دینے کا حق حاصل ،سول ملٹری تنائو موجود نہیں،وزیراعظم

اختلاف رائے ضرور ہو سکتا ہے،پارلیمنٹ ہی عدلیہ اور فوج کا احتساب کرسکتی ہے کوئی شخص نہیں ،فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں اگر اتفاق رائے ہوا تو عدلیہ اور فوج کے احتساب کیلئے پارلیمنٹ میں بحث کی جاسکتی ہے،مسلم لیگ (ن) جمہوری پارٹی ہے،شہباز شریف اور چوہدری نثار کو مکمل طور پر اختلاف رائے کا حق حاصل ہے ، پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک بنتا ہوا نہیں دیکھ رہا،سب کو پتہ ہے کہ فارورڈ بلاک کا کیا انجام ہوتا ہے،چوہدری نثار نے عدالت کے حکم پر ہی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا تھا،وہ عدالتی حکم سے ہی باہر گئے اورعدالتی حکم سے ہی واپس بلایا جا سکتا ہے، پارٹی ٹکٹ پرالیکشن لڑ کر سیٹ جیتنے والوں کو پارٹی کا قرض ادا کرنا ہو گا، جمہوریت میں بند عدالتوں میں کیس نہیں سنے جاتے ،جن لوگوں کو عدلیہ نے اجازت نامہ جاری کیا، انکو عدلیہ میں جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی،احتساب عدالت کے باہر بدنظمی کی رپورٹ سامنے آنی چاہیے، احتساب عدالت کے جج چاہیں تو رینجرز کوسیکیورٹی کیلئے بلاسکتے ہیں،آئی بی کا خط جعلی تھا،کیپٹن صفدر کی تقریرکو کسی نے نہیں سراہا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

پیر 16 اکتوبر 2017 23:07

آرمی چیف کو معیشت پر رائے دینے کا حق حاصل ،سول ملٹری تنائو موجود نہیں،وزیراعظم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 اکتوبر2017ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کو معیشت پر رائے دینے کا حق حاصل ہے،سول ملٹری تنائو موجود نہیں،اختلاف رائے ضرور ہو سکتا ہے،پارلیمنٹ ہی عدلیہ اور فوج کا احتساب کرسکتی ہے کوئی شخص نہیں کر سکتا،فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں اگر اتفاق رائے ہوا تو عدلیہ اور فوج کے احتساب کیلئے پارلیمنٹ میں بحث کی جاسکتی ہے،مسلم لیگ (ن) جمہوری پارٹی ہے،شہباز شریف اور چوہدری نثار کو مکمل طور پر اختلاف رائے کا حق حاصل ہے،مگر پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک بنتا ہوا نہیں دیکھ رہا،سب کو پتا ہے کہ فارورڈ بلاک کا کیا انجام ہوتا ہے،چوہدری نثار علی خان نے عدالت کے حکم پر ہی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا تھاوہ عدالتی حکم سے ہی باہر گئے اورعدالتی حکم سے ہی انہیں واپس بلایا جا سکتا ہے،جنہوں نے پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑ کر سیٹ جیتی انکوپارٹی کا قرض ادا کرنا ہو گا، جمہوریت میں بند عدالتوں میں کیس نہیں سنے جاتے ،جن لوگوں کو عدلیہ نے اجازت نامہ جاری کیا انکو عدلیہ میں جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی،احتساب عدالت کے باہر بدنظمی کی رپورٹ سامنے آنی چاہیے، احتساب عدالت کے جج چاہیں تو رینجرز کوسیکیورٹی کیلئے بلاسکتے ہیں،آئی بی کا خط جعلی تھا،کیپٹن صفدر کی تقریرکو کسی نے نہیں سراہا۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی وزیراعظم اور جماعت کو عدم اعتماد کا سامنا ہو سکتا ہے، مگروزیراعظم کی تبدیلی کیلئے آئینی طور پر ان ہائوس تبدیلی آ سکتی ہے،یہ تبدیلی آئین کے مطابق آنی چاہیے ورنہ ملک کا نقصان ہو گا، پارلیمنٹ کا حسن اپوزیشن سے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاورڈ بلاک ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں، فارور ڈ بلاک بنانے والے اپنی ماضی پر بھی نظر ڈالیں،سب کو پتہ ہے کہ فاروڈ بلاک بنانے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے،کبھی بھی فارورڈ بلاک بنانے والوں کی عزت باقی نہیں رہی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جنہوں نے پارٹی کے ٹکٹ کے الیکشن لڑ کر سیٹ جیتی ہے ان پر قرض موجود ہے اور ان کو پارٹی کا قرض ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری پارٹیوں میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ کوئی پارٹی میں علیحدہ گروپ بننے جا رہا ہے،مسلم لیگ (ن)ایک جمہوری پارٹی ہے،وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کو مکمل طور پر اختلاف رائے کا حق حاصل ہے، پہلے احتساب اور پھر انتخاب کی باتیں1988سے سنتا آ رہا ہوں مگر آئین کے مطابق چلنا ہے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہے،ٹیکنوکریٹس یا قومی حکومت کے قیام سے بہتری نہیں آ سکتی، قانون کے مطابق احتساب کا سلسلہ چلتا رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ آئین کے مطابق تمام معاملات چلنے چاہئیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ پر نا اہل کرنے کی سمجھ کسی کو بھی نہیں آئی،اقامہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ میاں صاحب کو کیوں نکالا گیا اور یہ کیسا فیصلہ تھا،بھٹو صاحب کی پھانسی کا فیصلہ آج تک تاریخ نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کورٹ کے احکامات سے ہی ملک سے باہر گئے تھے اور عدالت کے حکم سے ہی ان کو واپس بلایا جا سکتا ہے، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عدالت کے حکم پر ہی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو معیشت پر رائے دینے کا حق حاصل ہے،ملک میں معاشی اشاریے بہتری کی طرف ہیں،سول ملٹری تنائو موجود نہیں مگر اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ صرف قیادت ہی عدالتوں اور احتساب کا سامنا کرتی ہے،فوج اور عدلیہ کے اندر ہی اپنے احتساب کا نظام موجود ہے اوران دونوں اداروں کا احتساب پارلیمنٹ کے ذریعے کروانے کی فی الحال کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے،اگر ملک میں اس پر اتفاق رائے ہو تو عدلیہ اور فوج کے احتساب کیلئے پارلیمنٹ میں بحث کرائی جا سکتی ہے اور پارلیمنٹ ہی عدلیہ اور فوج کا احتساب کرسکتی ہے کوئی شخص نہیں کر سکتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج اگر ہم نے ایسا قانون بنانے کی کوشش کی تو میڈیا شور مچائے گاکہ حکومت اداروں سے انتقام لینے کیلئے ایسا قانون بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں بند عدالتوں میں کیس نہیں سنے جاتے ،جن لوگوں کو عدلیہ نے اجازت نامہ جاری کیا تھا ان کو عدلیہ میں جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی،احتساب عدالت کے باہر بدنظمی کی رپورٹ سامنے آنی چاہیے،احتساب عدالت کے جج چاہیں تو رینجرز کو بلا لیں ۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر تمام اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے عملدرآمد ہو گا، آئی بی کا خط جعلی ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، آئی بی نے ایف آئی آر درج کروائی ہے اور اس کو نشر کرنے پر پیمرا نے بھی نوٹس لیا ہے۔کیپٹن(ر)صفدر کی پارلیمنٹ میں متنازعہ تقریر پرسوال کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ پارٹی پالیسی نہیں ہے،کیپٹن صفدر کی تقریر کو کسی نے بھی نہیں سراہا،میڈیا میں بھی ان کی تقریرکو پذیرائی نہیں ملی۔