سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نجکاری و شماریات کا اجلاس

وزارت نجکاری کے کام کے طریقہ کار ، کردار ، کارکردگی ، بجٹ ، پچھلے چار سالوں میں کی گئی نجکاری اور مستقبل میں نجکاری کے متعلق منصوبہ بندی کے علاوہ حالیہ ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کی دو فیصد بلاکس کی دوبارہ مردم شماری اور شماریات ڈویژن سے حتمی مردم شماری رپورٹ اور جنرل الیکشن 2018 کے حوالے سے درپیش مسائل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

بدھ 18 اکتوبر 2017 19:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نجکاری و شماریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت نجکاری کے کام کے طریقہ کار ، کردار ، کارکردگی ، بجٹ ، پچھلے چار سالوں میں کی گئی نجکاری اور مستقبل میں نجکاری کے متعلق منصوبہ بندی کے علاوہ حالیہ ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کی دو فیصد بلاکس کی دوبارہ مردم شماری اور شماریات ڈویژن سے حتمی مردم شماری رپورٹ اور جنرل الیکشن 2018 کے حوالے سے درپیش مسائل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کووزیر برائے نجکاری دانیال عزیز و ڈائریکٹر جنرل نجکاری نے ادارے کی کارکردگی اور دیگر معاملات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نجکاری کمیشن1991 میں قائم ہوا ۔

(جاری ہے)

1993 میں فنانس ڈویژن کے ساتھ منسلک کیا گیا اور 2000 میں علیحدہ خود مختار ادارہ بنایا گیا ۔ نجکاری کیلئے دو طرح کی لسٹیں ہوتی ہیں ۔ نجکاری کے لئے ادارے کا تخمینہ ،نجکاری کمیشن بورڈ اورکیبنٹ کمیٹی برائے نجکاری طے کرتے ہیں ۔

نجکاری کمیشن حکومت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتا ہے ۔ ادارہ دو حصوں نجکاری ڈویژن اور نجکاری کمیشن میں تقسیم ہے ،نجکاری ڈویژن کا بجٹ 47.8 ملین روپے جبکہ نجکاری کمیشن کا بجٹ 106 ملین روپے ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نی1991 سی93 19تک 64 اداروں کی 12 ارب روپے میں نجکاری کی ۔ پیپلزپارٹی حکومت نے 1993-96 تک28 اداروں کی 45 ارب میں نجکاری کی ۔ مسلم لیگ (ن) نی1997-99 میں 9 اداروں کی 2 ارب میں نجکاری کی ، 1999 سی2002 تک 27 اداروں کی38 ارب میں نجکاری کی ۔

جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) 2002 سی2007 تک 38 اداروں کی 377 ارب روپے میں نجکاری کی گئی ۔ قائمہ کمیٹی نے اس کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اب تک 172 نجکاری ٹرانزکیشن کے ذریعے 648 ارب روپے حاصل کیے گئے ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یو بی ایل ، ایلائیڈ بنک ، ایچ بی ایل اور این پی سی سی کی مکمل طور پر نجکاری کر دی گئی ہے اور حکومت کا کوئی بھی شیئر ان میں نہیں ہے ۔

یہ نجکاری 7 فیصد ڈسکائونٹ پر گئی تھی ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوام میں یہ تاثر ہے کہ منافع بخش اداروں کی نجکاری کی گئی ہے جبک خسارے والے اداروں کی نہیں کی ۔ جس پر وزیر نجکاری نے کہا کہ جن لوگوں کے ذاتی مفاد تھے وہ اس طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جائے گی نجکاری پوری دنیا میں کی جاتی ہے ، پاکستان کو سنگاپور بنانے سے روکا گیا ہے چند ملازمین کے مفاد کی بجائے 20 کروڑ عوام کے مفاد کا سوچا جائے اگر بروقت نجکاری کی جاتی اور ملک کو اداروں کی طرف سے اربوں روپے خسارہ ادا نہ کرنا پڑتا تو پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا تھا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایس ایم ای بنک ، ماری پیٹرولیم اور پاکستان سٹیل ملز نجکاری لسٹ میں شامل کر لیے گئے ہیں ۔ جبکہ پی آئی اے کا خسارہ بھی 4 سو ارب تک پہنچ گیا ہے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے اعتراضات کی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی گئی ۔ اسی طرح 37 ادارے نجکاری لسٹ میں شامل ہیں جن کی سمری تیار کی جارہی ہے جن میں پی آئی اے بھی شامل ہے۔

جنکوز اور ڈیسکو زبھی خسارے میں ہیں ۔ ملک کے بہتر مستقبل کیلئے خسارے والے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی ۔ قائمہ کمیٹی کو وزیر شماریات کامران مائیکل وچیف کنسلنٹ آصف باجوہ نے حالیہ منعقد ہونے والی مردم شماری کے حوالے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مردم شماری پاک فوج و دیگر فورسز کے ساتھ مل کر کی گئی ہے ۔ صوبہ سندھ کے علاوہ باقی صوبے مردم شماری کے نتائج پر متفق ہیں ۔

سندھ کو کراچی کے حوالے سے کچھ اعتراضات ہیں کراچی کی بائونڈری میں اضافہ نہیں کیا گیا ۔ قاسم پورٹ اور منگو پیر بھی کراچی میں شامل نہیں ہیں گزشتہ 19 سالوںمیں کراچی صرف7دیہات شامل کیے گئے جبکہ لاہور کی بائونڈری میں خاصہ اضافہ کیا گیا ہے جن علاقوں کا نوٹیفکیشن کیا گیا تھا انہیں شامل کر لیا گیا ا ور ان کی مردم شماری کی گئی ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دو فیصد بلاکس میں دوبارہ مردم شماری کیلئے پاک فوج سمیت دیگر فورسز کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔

فارمز کی سکینگ کی جارہی ہے اور اپریل 2018 کے آخرتک حلقہ بندیاں مکمل ہو جائیں گی ۔ قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ جب مردم شماری پر اعتراضات اٹھائے گئے تو سی سی آئی میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبوںکے اعتراضات دور کیے جائیں۔ صوبائی ٹیکنکل کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہوں نے ہمارے نظام کو چیک بھی کیا اور سراہا۔ جیسے ہی ان کی رپورٹ آئے گی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

آصف باجو ہ نے کہا ولڈ بنک کی2007 کی پبلیکیشن کے مطابق 2030 میں کراچی کی آبادی اڑھائی کروڑ ہونا تھی اسی حوالے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ کراچی کی آبادی کم بتائی گئی ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا مسئلہ اگر کراچی میں ہی آرہا ہے تو کراچی میں مردم شماری دوبارہ کرائی جائے تاکہ صوبے کے اعتراضات ختم ہو سکیں اور 2018 کے الیکشن بروقت ہوسکیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سلیم مانڈوی والا اور ملک نجم الحسن کے علاوہ وزیر نجکاری دانیال عزیز ، وزیر شماریات کامران مائیکل ، سیکرٹری شماریات اور سیکرٹری نجکاری و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔