رکاوٹوں کے باوجود پاکستان اورکشمیری عوام مسئلہ کشمیرسے دستبردار ہونے کو تیارنہیں، مسئلہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی مضبوطی کلیدی حیثیت کی حامل ہے،تحریک آزادی کوناکامی کاتاثردینے والے منفی پراپیگنڈہ کے ذریعے کشمیری اورپاکستانی عوام میں مایوسی پھیلاکراپنے مذموم مقاصد کاحصول چاہتے ہیں

صدرآزاد کشمیرسردارمسعود خان کا انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیر اہتمام ’ تقریب میں لیکچر

بدھ 18 اکتوبر 2017 22:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 اکتوبر2017ء) صدرآزاد کشمیرسردارمسعود خان نے کہا ہے کہ رکاوٹوں کے باوجود پاکستان اورکشمیری عوام مسئلہ کشمیرسے دستبردار ہونے کو تیارنہیں، مسئلہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی مضبوطی کلیدی حیثیت کی حامل ہے،تحریک آزادی کوناکامی کاتاثردینے والے منفی پراپیگنڈہ کے ذریعے کشمیری اورپاکستانی عوام میں مایوسی پھیلاکراپنے مذموم مقاصد کاحصول چاہتے ہیں۔

وہ بدھ کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیر اہتمام ’’کشمیر: آج اورکل‘‘کے عنوان پر لیکچردے رہے تھے۔عنوان’’کشمیر: آج اورکل‘‘ تھا جس میں بڑی تعداد میں محققین اور جامعات کے طلباء و طالبات نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنے خصوصی خطاب میں انہوں نے ہندوستان کی جانب سے جاری اس پروپیگنڈہ کی بھی تردید کی کہ مقبوضہ کشمیرمیں آزادی پسند مجاہدین کسی بھی قسم کی دہشتگردی میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کشمیرمیں جاری تحریک آزادی کوناکامی کاتاثردینے والے منفی پراپیگنڈہ کے ذریعے کشمیری اورپاکستانی عوام میں مایوسی پھیلاکراپنے مذموم مقاصد کاحصول چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس تاثرکی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہرطرح کی رکاوٹوں کے باوجود پاکستان اورکشمیری عوام مسئلہ کشمیرسے دستبردار ہونے کو تیارنہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان روزِاول سے ہی اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کاخواہاں ہے مگر ہندوستان نے مذاکرات کے سارے راستے بندکر رکھے ہیں، پاکستان کے نزدیک مسئلہ کشمیر حقِ خودارادیت کا معاملہ ہے جبکہ ہندو لابی اسے علیحدگی پسندی کا رنگ دے رہی ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے گزارشات پیش کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہاکہ ہمارے ہاں صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔آراء میں تنوع کے باوجود کچھ بنیادی نکات پرمکمل اتحاد ہونا چاہیئے،اسی صورت میں مسئلہ کشمیر حل کی طرف جاسکتا ہے، ہمیں لوٹ کرعالمی برادری سے رجوع کرنا چاہیئے اور مسئلہ کشمیر کے موثر حل کیلئے بین الاقوامی اور بھارتی سول سوسائٹی کی مدد کے ساتھ ساتھ تارکین وطن جن کی تعداد 10 ملین کے لگ بھگ ہے کو بھی اسٹریٹجک اثاثہ کے طور پر استعمال کرنا چاہیئے۔

اس ضمن میں ذرائع ابلاغ جن میں پرنٹ، الیکٹرونک اورسوشل میڈیا کے علاوہ جامعات اور مختلف تحقیقی ادارے بھی شامل ہیں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے تیئں مؤثر اقدامات اور تحقیق کو بروئے کار لائیں۔ بین الاقوامی برادری کی مسئلہ کشمیر پر مکمل خاموشی کو صدر آزادکشمیر نے بے حسی، منافقت اور دوہرامعیار قراردیا، ان کے نزدیک اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

اس موقع پر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک بڑاچیلنج ہے جسکیمؤثر حل کیلیئے کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ وقت کی ضرورت کے تحت حکمتِ عملی پر اختلاف پایا جاسکتا ہے مگر بنیادی مؤقف میں تبدیلی ممکن نہیں۔ مایوسی اور خوف کی بنیاد پر کوئی بھی پالیسی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔