احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پر 2 ریفرنسز اور مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر پر ایک ریفرنس میں فرد جرم عائد کردی، سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت آج (جمعہ) تک کے لئے ملتوی

جمعرات 19 اکتوبر 2017 18:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اکتوبر2017ء) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پر 2 ریفرنسز اور مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر پر ایک ریفرنس میں فرد جرم عائد کردی جبکہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت آج (جمعہ) تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

جمعرات کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت کی۔ فاضل جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایون فیلڈ پراپرٹیز اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پیش ہونے والے نمائندے ظافر خان پر فرد جرم عائد کی۔ عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کی اور ملزمان کو فرد جرم کے نکات پڑھ کر سنائے۔

(جاری ہے)

فرد جرم کی کارروائی کے دوران ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا جب کہ سابق وزیراعظم کے نمائندے ظافر خان نے نواز شریف کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا۔ ظافر خان نے عدالت میں نواز شریف کا بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ مانیٹرنگ جج خاص طور پر تعینات کیا گیا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، آئین میرے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور شفاف ٹرائل میرا بنیادی حق ہے۔

احتساب عدالت نے فرد جرم کی کارروائی کے بعد استغاثہ سے شہادتیں طلب کرتے ہوئے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت 26 اکتوبر تک کے لئے ملتوی کردی۔ عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت آج (جمعہ) تک کے لئے ملتوی کردی۔ قبل ازیں ریفرنسز کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ محمد حارث کی معاون عائشہ حامد نے نواز شریف کی جانب سے عدالت میں 2 متفرق درخواستیں جمع کرائیں۔

محمدنواز شریف کی جانب سے کارروائی روکنے اور نیب کی جانب سے دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست کی گئی۔ عدالت نے نواز شریف کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں نیب کے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست کر رکھی ہے، اس لئے جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا اس وقت تک سماعت روکی جائے۔

دوسری درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایک الزام پر ایک ہی ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے، تین نہیں۔ جے آئی ٹی نے تینوں ریفرنسز میں ایک ہی سمری لگا رکھی ہے اور تینوں ریفرنسز میں گواہ بھی مشترک ہیں۔ وکیل عائشہ حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا گیا، ایک الزام پر صرف ایک ہی ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے جب کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے تحقیقات کی ایک ہی سمری تین مرتبہ پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ تمام ریفرنسز کا انحصار ایک ہی جے آئی ٹی رپورٹ پر ہے، تمام ریفرنسز ایک جیسے ہیں جن میں بعض گواہان مشترک ہیں۔ نواز شریف کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ سے نظرثانی درخواست کے تفصیلی فیصلے کا بھی انتظار ہے جب کہ ریفرنسز یکجا کرنے کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے میں ریفرنس نہیں ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا جب کہ یہ تمام گزارشات سپریم کورٹ کے سامنے رکھی جا چکی ہیں اور کسی قانون کے تحت فوجداری کارروائی کو نہیں روکا جاسکتا۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت نے نواز شریف کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔ سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ آج ان کے دونوں موکلوں پر فرد جرم عائد نہ کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عبوری ریفرنس میں دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، جب تک تمام دستاویزات نہیں دی جاتیں اس وقت تک سماعت روکی جائے۔

وکیل نے کہا کہ گواہوں کے بیانات کی کاپی اور والیم 10 کی فراہمی تک فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے آج ہی فرد جرم کی استدعا کی۔ سماعت کے دوران تین مرتبہ وقفہ کیا گیا ۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران تین مرتبہ 15، 15 منٹ کا وقفہ کیا۔ پہلا وقفہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست پر کیا گیا۔

نواز شریف کی جانب سے سماعت روکنے کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فاضل جج نے فیصلہ محفوظ کیا جس کے بعد 15 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست سامنے آئی تو دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرکے ایک مرتبہ پھر 15 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔