تمام اداروں کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہیے ،وزیر اعظم

ملک میں 20 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں کو چور ڈاکو کہا جارہا ہے سرکاری افسران کو بلا کر بے عزت کیا جاتا ہے ایسے اداروں کے خلاف ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ اداروں کے تصادم سے ملک کو نقصان نہ ہو،شاہد خاقان عباسی کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال حکومت کو قانون سازی کے حوالے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا، اس ایوان کو کمزور کرنے میں ہمارا ہی کردار ہے،خورشید شاہ ملک میں تبدیلی اور عوام کی بہتری کیلئے قانون سازی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم مانتے ہیں کہ تمام اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیے لیکن حکومت بھی تو اپنا کام کرے،اپوزیشن لیڈر کا اظہار خیال منتخب نمائندوں کامطلب یہ نہیں کہ آپ جو مرضی چاہیں کریں آپ ملکی اداروں کو استعمال کریں جو بھی ملکی مفاد میں قانون سازی ہوگی اس کی حمایت کریں گے،کوئی قانون سازی کسی شخص کو بچانے کیلئے ہوگی اس کی مخالفت کریں گے ،شفقت محمود کا ردعمل

پیر 19 فروری 2018 23:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 فروری2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملکی تمام اداروں کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہیے ،ملک میں 20 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں کو چور ڈاکو کہا جارہا ہے سرکاری افسران کو بلا کر بے عزت کیا جاتا ہے ایسے اداروں کے خلاف ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ اداروں کے تصادم سے ملک کو نقصان نہ ہو۔

پیر کے روز قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کر تے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالتوں میں منتخب نمائندوں کو چور ڈاکو کہا جاتا ہے جو کہ عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے یہ اخباری خبریں ہوسکتی ہیں مجھے یہ امید ہے کہ یہ سب غلط ہوگا لیکن اداروں کے درمیان تصادم کا نقصان ہمیشہ ملک کو ہی ہوتا ہے کیا یہ مقدس ایوان قانون سازی کرنے میں ناکام ہوچکا ہے کہ ایک جامع قانون سازی نہیں کر سکتا کہ ادارے اپنا اپنا کام کریں اور منتخب نمائندوں کا احترام کریں ۔

(جاری ہے)

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ سینیٹ کا الیکشن لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جماعت کا ایک بھی ایم پی اے نہیں ہے لیکن اس کے سینیٹ کے نمائندے الیکشن لڑ رہے ہیں اگر حکومت کو قانون سازی کا حق حاصل ہے تو وہ قانون سازی کرے اگر کوئی قانون سازی غلط ہو بھی جاتی ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ایک فرد کو نشانہ بنایا جائے ۔ ماضی میں جو فیصلے ہوئے ہیں ان فیصلوں کا تعین کرنا ضروری ہے آج اس اہم مسئلے پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔

میری لیڈر آف اپوزیشن سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس کو سیاسی مسئلہ نہ بنائیں کیونکہ آج ہماری حکومت ہے کل کسی اور کی حکومت ہوگی ادارے اپنے کام کریں اگر ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت گے تو اس کا نقصان بھی پاکستان کو ہی ہوگا۔ بعد ازاں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی پارلیمنٹ میں تقریر کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت کو قانون سازی کے حوالے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اس ایوان کو کمزور کرنے میں ہمارا ہی کردار ہے پانامہ کے بعد اپوزیشن نے کتنی کوشش کی کہ اس کا حل اسی پارلیمنٹ میں ہو لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اقرار کرنا ہوگا کہ آپ نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں پارلیمنٹ کا حق ہے کہ ہم عوام کی بہتری کیلئے فیصلے کریں جو بھی قانون سازی کسی ایک شخص کیلئے نہ ہو بلکہ وہ عوام کی لئے ہو ملک کی بہتری کیلئے ہو اگر 1991 ء کے ریکارڈ پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج ہم بات نہ کررہے ہوتے خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم قانون سازی نہیں کی جس کا مثبت الفاظ میں ذکر کیا جائے۔

اس ایوان میں ہمیشہ ہی اپوزیشن کو نظر انداز کیا گیا ہے اگر کوئی بھی قانون سازی ہوئی ہے تو ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا سی سی آئی میں ہونے والے فیصلوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا اگر آپ فیصلے کرکے عملدرآمد نہیں کریں گے تو پھر کہاں سے آپ طاقتور بنیں گے ملک میں تبدیلی اور عوام کی بہتری کیلئے قانون سازی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم مانتے ہیں کہ تمام اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیے لیکن حکومت بھی تو اپنا کام کرے۔

اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے ردعمل میں پی ٹی آئی رہنماء شفقت محمود نے کہا کہ منتخب نمائندوں کامطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جو مرضی چاہیں کریں آپ ملکی اداروں کو استعمال کریں جو بھی ملکی مفاد میں قانون سازی ہوگی اس کی حمایت کریں گے اور کوئی قانون سازی کسی شخص کو بچانے کیلئے ہوگی اس کی مخالفت کریں گے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ جب اپوزیشن کی باری آتی ہے تو وزیراعظم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

حکومت صرف اپنے مفادکی خاطر قانون سازی کرانا چاہتی ہے اور ایوان میں بھی تشریف لاتی ہے۔ انہیں اپوزیشن سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ملکی مفاد سے جو لوگ آج بھی پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے تقریریں کررہے تھے۔ احسن اقبال کی باتیں سن کر یہ احساس ہوا کہ وہ ابھی نو بلد ہوئے ہیں سب سے زیادہ حکومت مسلم لیگ کی حکومت رہی ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے ان 20 پچیس سالوں سے ملک کیلئے کیا کیا وہ جماعت جو سب سے زیادہ حکومت میں رہی ہو اور وہ یہ تجاویز دے کر پارلیمنٹ کیلئے کیا ۔

اسی ایوان میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہماری فوجیں ایسے ملک کا حصہ نہیں بنیں گی جس سے دوسرے دوست ملک کا اعتراض ہو۔ آپ کے جو اہم مسائل ہیں یہ جو فیصلے ہیں یہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے ہیں۔ شفقت محمد آپ نے جو ڈیشل ریفارم کیلئے کیا کیاہے۔ یہ سب مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ یہ ایک شخص کو بچانے کیلئے ہے عدالتوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ جوڈیشل کو فون کرکے فیصلہ کروائے جاتے رہے۔

جوڈیشلی پر عمل کیا گیا۔ اگر آپ کا مقصد ملک کے مفاد میں کام کرنا ہے تو بتائیں اگر آپ منتخب ہوگئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جر مرضی آئے کریں گے۔ سارے اداروں کا احترام بھی لازمی ہے۔ آئین کے متصادم قانون سازی ہو ہی نہیں سکتی ان فیصلوں کے خوف سے دن رات اس ادارے پر حملے کرنا اور ڈرنا کیا یہ جمہوریت کی مذمت ہے نہیں یہ جمہوریت کی حکومت نہیں ہے۔ اگر سینیٹ کے الیکشن میں پیسے کے حوالے سے خبریں عام ہونے سے کسی کو ٹرافی نہیں مل جائے گی۔ جس طرح سیاستدان ایڈمنسٹریشن پولیس اور اداروں کو استعمال کرتے ہیں ان وک روکا جائے جمہوریت کی خاطر جو بھی قانون سازی ہوگی کریں گے۔