آئندہ بجٹ میں کاروباری برادری کی تمام قابل عمل تجاویز کو شامل کیا جائے،

پاکستان کو توانائی اور پانی کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانا ہوگی، بجلی کی پیداوار‘تقسیم اور ٹرانسمیشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھاکر طلب و رسد کے درمیان فرق ختم کیا جائے، لاہور چیمبر آف کامرس

پیر 16 اپریل 2018 20:57

آئندہ بجٹ میں کاروباری برادری کی تمام قابل عمل تجاویز کو شامل کیا ..
لاہور۔16 اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اپریل2018ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ملک طاہر جاوید نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ کو اس طرح ترتیب دے کہ یہ صنعت، تجارت اور معیشت کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ ایک بیا ن میں لاہور چیمبر کے صدرنے کہا کہ وفاقی بجٹ کسی بھی ملک کی ایک انتہائی اہم دستاویز ہوتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر آئندہ سال کے لیے معاشی سمت متعین کی جاتی ہے، ضروری ہے کہ وفاقی بجٹ میں کاروباری برادری کی تمام قابل عمل تجاویز کو شامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو توانائی اور پانی کی اشد ضرورت ہے، ان شعبوں میں حکومت کو سرمایہ کاری بڑھانا ہوگی، بجلی کی پیداوار، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھاکر طلب و رسد کے درمیان فرق ختم کیا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سرکلر ڈیبٹ اہم مسئلہ بن چکا ہے جو بجلی کے شعبے کو بٴْری طرح متاثر کرے گا، حکومت سرکلر ڈیبٹ پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے، بجلی پر پرافٹ مارجن انتہائی معمولی ہونا چاہیے تاکہ صارفین کو فائدہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں متبادل ذرائع سے بھی وافر توانائی پیدا کرنے کی گنجائش ہے ، بائیوفیول، بائیو ماس اور دیگر ذرائع سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں لہذا بالخصوص دیہی علاقو ںمیں انہیں فروغ دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برازیل اور فلپائن سمیت دیگر کئی علاقوں میں نباتاتی ذرائع سے بائیوڈیزل حاصل کیا جارہا ہے،یہ نباتات پاکستان کے بہت سے علاقوں میں باآسانی اگائی جاسکتی ہیں۔

ملک طاہر جاوید نے کالاباغ ڈیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسے چند عناصر کی خواہشات کی نذر نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے دو ارب ڈالر کا معاشی فائدہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر سال پینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے، یہ قیمتی پانی کالاباغ ڈیم میں باآسانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام کو کاروبار دوست بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، ایسی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو موجودہ ٹیکس دہندگان پر سے بوجھ کم کریں اور نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں، ایف بی آر سٹیک ہولڈرز کی فیڈ بیک پر سنجیدگی سے غور کرے تو مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے ٹیکسوں کی تعداد اور صوابدیدی اختیارات میں کمی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوںنے کہا کہ بینک اکائونٹس تک رسائی بھی پریشان کی ایک بڑی وجہ ہے اسے روکا جائے۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کے تحت منصوبوں کی تشکیل میں مقامی صنعتوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وہ بھی یکساں فائدے اٹھاسکے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کے ریفنڈ کیسز جلد نمٹائے جائیں کیونکہ بالخصوص برآمد کنندگان کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمگلنگ مقامی صنعتوں کو بھاری نقصان پہنچارہی ہے اسے سختی سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر تجارت و ٹیکسٹائل برآمدات کو فروغ دینے کے لیے بہترین اقدامات اٹھارہے ہیں، اگر کاروبار کرنے کے حوالے سے آسانیاں پیدا کی جائیں تو برآمدات مزید تیزی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔