پبلک اکاونٹس کمیٹی نے پی پی دور میں وزارت پانی وبجلی کے تین ارب چوالیس کروڑ روپے سے زائد کے درجنوں آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے ،اراکین کو خاموش رہنے کا کہہ دیا گیا ، کمیٹی کا اعلی افسران کے ہمراہ ملازمین کی بڑی تعداد میں آمد پراظہار برہمی،جن کا پی اے سی میں کام ہو صرف وہی آیا کریں،غیر ضروری اہلکار ہمراہ نہ لایا کریں،ہدایت ، پیپرا رولز میں ترمیم کر دی گئی ہے،اب قانون یہ ہے کہ کمپلیکس پروجیکٹ بغیر کی بولی کے حکومتی اداروں کو دیئے جائیں گے، ایم ڈی نیسپاک کی بریفنگ

جمعرات 6 مارچ 2014 08:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء)قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی )نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزارت پانی وبجلی کے تین ارب چوالیس کروڑ روپے سے زائد کے درجنوں آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے،اراکین کو بولنے پر خاموش رہنے کا کہہ دیا گیا ،کمیٹی نے وزارتوں کے اعلی افسران کے ہمراہ ملازمین کی بڑی تعداد میں آمد پراظہار برہمی کر تے ہوئے کہاہے کہ وزارتوں کے اعلی حکام جن کا پی اے سی میں کام ہو صرف وہی آیا کریں اور غیر ضروری اہلکار ہمراہ نہ لایا کریں ۔

جبکہ نیسپاک کے ایم ڈی امجد علی خان نے کہا ہے کہ پیپرا رولز میں ترمیم کر دی گئی ہے ۔اب قانون یہ ہے کہ کمپلیکس پروجیکٹ بغیر کی بولی کے حکومتی اداروں کو دئے جائیں گے۔کمیٹی کا اجلاس چئیرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے وزارتوں کے اعلی افسران کے ہمراہ ملازمین کی بڑی تعداد میں آمد پراظہار برہمی کر ے ہوئے کہاہے کہ وزارتوں کے اعلی حکام جن کا پی اے سی میں کام ہو صرف وہی آیا کریں اور غیر ضروری اہلکار ہمراہ نہ لایا کریں ۔

ہمارا کا م عوام کے ٹیکسوں کی رقم کو ضائع ہونے سے بچانا ہے ۔چئیرمین نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ آئندہ پی اے ی کے اجلاس کو مدنظر رکھ کر میٹنگ رکھا کریں ۔تاکہ پرنسپل اکاونٹنگ افسر میٹنگ میں شرکت کر سکے۔اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کی 2010-11 کے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 10-2009میں وزارت پانی و بجلی مختلف منصوبوں کے لیے مختص 22.4ارب روپے استعمال کرنے میں ناکام رہی۔

یہ رقم نئے دیہات کو بجلی کی فراہمی اور متبادل توانائی کے منصوبوں کے لیے تھی کمیتی کو بتایا گیا کہ مذکورہ دور میں نوید قمر وزیرپانی وبجلی تھے رکن کمٹی میاں عبدالمنان نے نوید قمر سے سوال کیا کہ نوید قمر صاحب یہ تو بہت اہم منصوبے تھے کیوں رقم خرچ نہیں کی جس پر نوید قمر کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری اس وقت متبادل توانائی بورڈ کے سربراہ تھے وہی جواب دیں گے، آڈٹ حکام نے بتایا کہ 09-2008میں نیسپاک کی آمدن 3ارب 39کروڑ سے بڑھ کر 4ارب33کروڑ ہوگئی،پی اے سی کا نیسپاک کی آمدنی میں اضافے کے باوجود منافع میں کمی پر تحفظات کا اظہار کیا،آپریٹنگ پروفٹ میں کمی قابل تشویش ہے۔

نیسپاک کے انتظامی اخراجات میں اضافہ ہو ا ہے اس حوالے سے نیسپاک کو کئی مرتبہ اخراجات کم کرنے کے لئے کہا ہے مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہو ا۔ ایم ڈی نیسپاک نے کمیٹی کو بتایا کہ نیسپاک کی آمدن میں اتار چڑھاو ہو تا رہتا ہے ،یہ کوئی بات نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ میٹروبس راولپنڈی ٹو اسلام آباد کے منصوبے پر کام ایک ماہ میں شروع ہو جائے گا، 27کنٹریکٹرز نے درخواست دی ہے۔

کمیٹی نے استسفار کیا کہ راوالپنڈی میٹرو بس منصوبہ نیسپا ک کو کس طریقہ کا ر کے تحت ملا ہے ۔جس پر ایم ڈی نیسپا ک نے بتایا کہ پیپرا رولز میں ترمیم کر دی گئی ہے ۔اب قانون یہ ہے کہ کمپلیکس پروجیکٹ بغیر کی بولی کے حکومتی اداروں کو دئے جائیں گے۔ آڈت حکام نے کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیسپا ک اور نیسپاک فاونڈیشن دو علیحدہ علیحدہ ادارے ہیں ۔فاونڈیشن حکومت کے متحت نہیں ہے ۔

ایم ڈی نیسپاک نے بتایا کہ دونوں اداروں میں ایک ہی شخص کو بورڈ آف گورنر لگایا جاتا ہے ۔اس لئے دونو ں ادارے ایک دوسراے سے انٹر لنک ہیں ۔نیسپاک سے ریٹائر ہونے کے بعد ماہرین کو نیسپاک فاونڈیشن میں رکھ لیا جاتا ہے ۔عارف علوی نے کہا کہ پاکستان میں 60سال بعد ڈاکٹر ، انجینئر ، پروفیسر اور سائنسدان کو ریٹائر کر دیا جاتا ہے ۔ایسا نہیں ہانا چاہئے کمیٹی اس حوالے سے ٹھوس مئوقف دے ۔

رکن کمیٹی محمود اچکزئی نے کہا کہ بیرون ممالک سے اکثر وفود میں نوجوان آتے ہیں ۔ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ایم ڈی نیسپاک نے کہا کہ عالمی ادارے سینئر ماہرین کی سی ویز دیکھ کر ہمیں اپنے ٹھیکے دیتے ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ حکومتی ادارے اپنا پیسامنافع بخش بینک اکاونٹس میں رکھیں ۔اجلاس کے دوران ایک آڈت اعتراض میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت پانی بجلی نے 336ارب روپے سے زائد سپلیمنٹری گرانٹ لی اور اس میں سے بھی 9ارب روپے سے زائد رقم بغیر خرچ کئے واپس کر دی گئی۔

وزارت کے حکام نے بتایا کہ اضافی رقم سبسڈی کے لئے لی گئی تھی ۔اس حوالے سے جب رکن کمیٹی پرویز ملک نے سوال کیا کہ سبسڈی کے لئے رقم بجٹ میں کیوں نہیں رکھی گئی تو خورشید شاہ نے انہیں چپ کراتے ہوئے ہدایت کی کہ آڈٹ اور وزارت کے حکام مل کر اس اعتراض کو دور کر دیں۔

متعلقہ عنوان :