مولانا فضل الرحمن کا قومی سلامتی پالیسی میں اصلاحات کے نام پر مدارس کو نشانہ بنانے کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان ،20 مارچ کو ملتان،27 مارچ کو پشاور کے بعدکوئٹہ اور کراچی میں بھی مظاہرے کرنے کا اعلان ،طالبان کے ساتھ مذاکرات کا وہ راستہ نہیں اپنا یا گیا جو اختیار کرنا چاہئے تھا،حکومت جس ڈگر پر جا رہی ہے کسی سے مشاورت کر رہی ہے نہ کوئی دلیل سمجھتی ہے،صوابی میں صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 6 مارچ 2014 08:12

صوابی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمن نے مرکزی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی میں اصلاحات کے نام پر مدارس کو نشانہ بنانے کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیاہے جس کے تحت 20 مارچ کو ملتان میں جب کہ 27 مارچ کو پشاور میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں کے بعدکوئٹہ اور کراچی میں بھی احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔

انہوں نے یہ اعلان بدُھ کی شام موضع زروبی ضلع صوابی میں بزرگ عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمد ابراہیم فانی کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد مقامی صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ ضلعی امیر مولانام فضل علی حقانی ، صوبائی ناظم مالیات نور الاسلام اور پریس سیکرٹری محمد ناظم و دیگر رہنما بھی اس موقع پر موجود تھے۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر دینی جماعتوں نے قومی پالیسی آنے پر مذاکرات کئے اس پر ہمارے تحفظات ہے کیوں کہ اس قومی سلامتی پالیسی میں ایک بار پھر اصلاحات کے نام پر مدارس اور اس کے کر دار کا خاتمہ کرنا مقصود ہے۔

اور یہ عالمی ایجنڈے کی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں جے یو آئی ملک بھر میں مدارس اور علماء کے تحفظ اور مسلمانوں میں اس سازش کے خلاف بیدار ی پیدا کر نے کیلئے بھر پور احتجاجی مظاہرے کرئے گی ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے موڈ میں نہیں ہے اور وہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ اس خطے میں موجود رہے۔افغان صدر حامد کرزئی جسے ہم امریکی کٹھ پتلی قرار دے رہے تھے آج ان کا موقف پاکستان سے سخت ہے۔

یہ افغانستان کا مسئلہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ خطے میں رہنے کا کمپرومائز کرتا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا وہ راستہ نہیں اپنا یا گیا جو اختیار کرنا چاہئے تھا۔ حکومت کو تمام قوتوں کے ساتھ مذاکرات کر نا چاہئے کیوں کہ ایک قوت کے ساتھ مذاکرات کر نے اور دیگر کے ساتھ نہ کر نے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جس ڈگر پر جا رہی ہے کسی سے مشاورت کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی دلیل سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے ابھی تک ریاستی اداروں میں امن کے بارے میں نظریہ قائم نہیں ہو سکا ہے ۔اور جب تک ریاستی اداروں میں نظریہ قائم نہ ہوں تو مذاکرات کی کامیابی اور اس کیلئے کوششیں کامیاب ہونا ممکن نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے حوالے سے جو قرار داد پاس کی تھی اس میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور اس کے اتحاد سے نکلنا تھا ۔لیکن اب جو قومی سلامتی پالیسی آئی ہے اس میں اس کا ذکر نہیں ہے