کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کا مقصد گونگے بہرے حکمرنوں کے ضمیر کو جھنجوڑنا تھا، ماماقدیر بلوچ ، ریاست کے تمام اداروں کے دروازوں کو انصاف کیلئے کھٹکھٹاچکے مگر کہیں سے بھی ہماری داد رسی نہیں ہوئی، نجی ٹی وی سے گفتگو

جمعرات 6 مارچ 2014 08:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماماقدیر بلوچ نے کہا ہے کہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کا مقصد ان گونگے بہرے حکمرنوں کے ضمیر کو جھنجوڑنا تھا جو بلوچستان میں مسائل کے حل کیلئے ہلکان تو ہو رہے ہیں مگر لاپتہ بلوچ فرزندوں کے مسئلے پر لب کشائی تک نہیں کرسکتے ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر لاپتہ ذاکر مجید کی ہمشیرہ فرزانہ مجیدڈاکٹر دین محمدبلوچ کی بیٹی سمیع بلوچ لاپتہ رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ بھی ان کے ہمراہ تھے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سے وائس چیئرمین ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ ہم گزشتہ 4 سال سے زائد عرصہ سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والے لوگوں کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج ہیں سابقہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ہمیں طفل تسلیاں دیں اور اپنی حکومت کا وقت گزاراموجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آنے سے قبل اعلانات تو بہت کئے مگر 8 ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجودبلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے آئین و قانون لاپتہ ہونے والے لوگوں کی بازیابی تو یقینی نہ بنا سکے تاہم اتنا فرق ضرور آیا ہے کہ پہلے تو 2 سے 3 مسخ شدہ لاشیں ملا کرتی تھیں موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں اجتماع قبر سے ہی 169 لاشیں ہمیں تحفہ میں دے دی جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ ریاست کے تمام اداروں کے دروازوں کو انصاف کیلئے کھٹکھٹاچکے مگر کہیں سے بھی ہماری داد رسی نہیں ہوئی جس کے بعد بالآخر ہم نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد موجود تھی جب یہ ریلی نکالی گئی تو بلوچستان کے علاقوں میں ہمیں فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں مگر سندھ کے علاقوں میں پہنچنے پر گاڑیاں ہمارا تعاقب کرتی رہیں اور ان گاڑیوں میں سوار لوگ ہمیں دھمکاتے رہے جبکہ ایک مقام پر تو تیز رفتار ٹرک کے ذریعے ریلی کے شرکاء کو ٹکر ماری گئی جس سے دو افراد زخمی ہوئے ہم نے ٹرک ڈرائیور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا مگر پولیس نے اس ٹرک ڈرائیور کو چھوڑ دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریلی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے میں خفیہ ادارے ملوث تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اٹھایا جائے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان سے ماورائے آئین و قانون لوگوں کو لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے عمل میں خفیہ ادارے ملوث ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے اپنے احکامات میں واضح کردیا ہے کہ لاپتہ افراد خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں ہم نے اسلام آباد تک جو لانگ مارچ کی ہے اس کس مقصد یہی تھا کہ جن لوگوں کو اسلام آباد میں بیٹھے بلوچستان نظرنہیں آرہا ان کے دروازوں پر جاکر اپنے مسائل سنائیں تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ کر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں اسلام آباد میں ہم نے اقوام متحدہ کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے جس میں انہیں بلوچستان کے مسائل اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی سے متعلق مکمل آگاہی دی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ریاست کے ادارے یا تو انصاف فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتے یا پھر وہ بلوچ کو ان کے حقوق دینا نہیں چاہتے انہوں نے کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ لاپتہ افراد پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے اگر یہ بات درست ہے تو ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ان لوگوں کو منظر عام پر لاکر قانون کے مطابق مقدمات چلائے جائیں لوگوں کو اٹھانا اور ان کی مسخ شدہ تشدد زدہ لاشیں پھینکنا کہاں کا انصاف ہے اب تک 18 ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں جبکہ بلوچستان میں اس وقت سیاسی کارکنوں اوردوران آپریشن لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس سے لاپتہ افراد کی تعداد 19ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اس تمام صورتحال میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے رکھیں گے اور لاپتہ افراد کے مقدمہ کو بین الاقوامی عدالت میں لے جائیں گے تاکہ ہمیں انصاف مل سکے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کے پردہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے مگر یہاں ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں جس کے باعث لاپتہ افراد کی مائیں بہنیں  بیٹیاں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت محض اعلانات پر اکتفاء کررہی ہے اگر وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو اب تک ہمارے پیارے گھروں کو پہنچ چکے ہوتے اور ہمیں یوں سرکوں پر دربدر کی ٹھوکریں کھانا نہ پڑتیں