قبائلی علاقوں میں جمعیت علماء اسلام کے علاوہ کوئی بھی آپریشن کی مخالفت نہیں کررہا ،فضل الرحمان ،مذاکرات کا ماحول چھوڑ کر صرف14 دنوں کے لیے بیرون ملک گیا تھاواپس آیا تو ہر طرف آپریشن کا ماحول دیکھا،سمت صحیح کیے بغیر مذاکرات سے امید لگانا عبث ہے،شرعی قانون سازی اگر شروع کردی جاتی تو آئین کاتقاضابھی پورا ہوجاتا اور طالبان بھی مطمئن ہوجاتے،مولانا ظہور الحق سے ملاقات کے بعد بات چیت

ہفتہ 8 مارچ 2014 02:57

اٹک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مارچ۔2014ء)سربراہ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں جمعیت علماء اسلام کے علاوہ کوئی بھی آپریشن کی مخالفت نہیں کررہا ،مذاکرات کا ماحول چھوڑ کر صرف14 دنوں کے لیے بیرون ملک گیا تھاواپس آیا تو ہر طرف آپریشن کا ماحول دیکھا،سمت صحیح کیے بغیر مذاکرات سے امید لگانا عبث ہے،شرعی قانون سازی اگر شروع کردی جاتی تو آئین کاتقاضابھی پورا ہوجاتا اور طالبان بھی مطمئن ہوجاتے ان خیالات کا اظہار انہوں نے حضرو کے نواحی گاؤں ہارون اور دامان میں سید حسن شاہ کی عیادت اور شیخ الحدیث مولانا ظہور الحق سے ملاقات کے بعد خصوصی بات چیت میں کیا اس موقع پرضلعی سیکرٹری اطلاعات جے یو آئی حافظ ہارون الرشید،قاری محمد ابراہیم ،سید فیض الحسن شاہ ،مولانا بلال بادشاہ سید ظہیر الحسن شاہ، حافظ محمد اشفاق کے علاوہ مقامی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تمام معاملات میں سخت چوکیداری ہمیں کرنا پڑتی ہے دیگر جماعتیں اور ان کے لیڈران ہواکے دوش پر روانہ ہوجاتے ہیں مذاکرات سے اچانک آپریشن کی طرف جاتے ماحول کو الحمد للہ ہم نے روکا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ ملک امن کی طرف جائے تاہم اس کے لیے خلوص نیت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑہانا چاہیے ،انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ تمام عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں مگر افسوس کہ ہماری بات سے کوئی تکنیکی غلطی نکالے بغیر عمل نہیں کیا گا جس کی وجہ سے مذاکرات اور دھماکے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں قبائلی عوام کو نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ اس بات پر دستخط موجود ہیں کہ امن کے لیے ہونے والے مذاکرات میں قبائلیوں کا جرگہ بات چیت کرے گا ،انہوں نے کہا کہ حکومت کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے اسٹیٹ چند گرپوں کے مدمقابل نظر آرہی ہے جو مناسب نہیں ہے ۔

متعلقہ عنوان :