طالبان کی سیاسی شوریٰ سے مذاکرات ، حکومت کے کمیٹی قائم کرنے کیلئے سیاسی رہنماوٴں سے رابطے ، وزیر داخلہ چوہدری نثار کا تحریک انصاف ، جمعیت علمائے اسلام ، قومی وطن پارٹی کی قیادت سے رابطہ ، عمران خان کی مکمل تعاون کی یقین دہانی،حکومتی کمیٹی کیلئے تحریک انصاف کے رستم شاہ مہمند کا نام تجویز، وزیرستان جانے کیلئے تمام تر تیاریاں مکمل ہیں، پروفیسر ابراہیم ،طالبان قیادت اور شوریٰ نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی پر دوبارہ اعتماد کا اظہار کردیا ہے ،مولانا سمیع الحق

پیر 10 مارچ 2014 07:40

پشاور(رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10مارچ۔2014ء)طالبان کی سیاسی شوریٰ سے مذاکرات کیلئے حکومت نے کمیٹی قائم کرنے کیلئے رابطے شروع کر دیئے ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف ، جمعیت علمائے اسلام ، قومی وطن پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی ہے ، ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فون کر کے تحریک انصاف کے قائدین کی کمیٹی میں شمولیت پر گفتگو کی ، اس موقع پر عمران خان نے امن مذاکرات میں حکومت کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ہے ، تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام ، قومی وطن پارٹی کی قیادت سے بھی تجاویز طلب کی ہیں ۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جمعرات تک حکومتی کمیٹی کا اعلان ہو جائے گا ۔

(جاری ہے)

جس کیلئے حکومت نے 5ناموں پر اتفاق کر لیا ہے جن پر مشاورت کی جا رہی ہے ۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ کمیٹی کیلئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن ، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر اکرم خان درانی ، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاوٴ جبکہ مسلم لیگ ن کے نائب صدر اور وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کا نام لیا جا رہا ہے ، جن کے ناموں کی حتمی منظوری کیلئے وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو خصوصی ٹاسک سونپا ہے ۔

وفاقی حکومت نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے رستم شاہ مہمند کا نام تجویز کیا ہے۔وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور اور سرکاری مذاکرتی ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ طے پایا تھا کہ طالبان سے ملاقات کے لیے جانے والے وفد میں اس بار سرکاری کمیٹی کا نمائندہ بھی شامل ہوگا اور اس کے لیے سابق سفیر کا نام پیش کیا گیا تھا۔

رستم شاہ مہمند سرکاری ٹیم میں خیبرپختونخوا کی حکمران اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کررہے ہیں۔ادھر اتوار ہی کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور جماعت کے عہدیداروں کے مطابق دونوں شخصیات میں امن مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔

طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی میں شامل جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں سے بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز حکومت کی طرف سے مجوزہ نئے مذاکرات کاروں کی کمیٹی کے قیام کا منتظر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ امن کے لیے ایک علاقہ مختص کیا جائے جہاں فوج کا عمل دخل نا ہو اور جہاں وہ اپنی نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔

مولانا سمیع الحق بھی اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ”ہم چاہتے ہیں کہ ایک ضلع، تحصیل یا ایک شہر کم از کم وہ بالکل ’پیس زون‘ ہو تاکہ ہمارے لوگ بھی وہاں جا کر بیٹھ سکیں اور طالبان بھی۔ یہ تو مذاکرات ہیں بار بار وہاں جانا ہوگا۔ ہم سے زیادہ حکومتی کارندوں اور حکومتی کمیٹی کو اس کی ضرورت ہے۔“تاہم جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر کے بقول حکومت نے ابھی تک عسکریت پسندوں کے اس مطالبے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور کا کہنا تھا کہ ”اب آگے کے جو مراحل ہیں شاید اس میں کوئی بڑے اہم امور کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ تو حکومت ایسی کمیٹی تشکیل دے جو سرکاری، ریاستی عہدیداروں پر مشتمل ہو اور وہ موقع پر فاسٹ ٹریک پر فیصلے کر سکے۔“حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مذاکرات میں فوج کے نمائندے کی شمولیت کی مخالفت کی ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا شدت پسندوں کو ریاست کے برابر حیثیت دینے کے مترادف ہوگا۔

ادھرطالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ابھی تک وزیرستان جانے کیلئے حکومتی نمائندے کا اعلان نہیں کیا گیا‘ جب حکومت وزیرستان جانے کیلئے اپنے نمائندے کا اعلان کرے گی تو پھر وزیرستان جانے کی تاریخ متعین کی جائے گی۔ اتوار کو طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے وزیرستان جانے کیلئے تمامتر تیاریاں مکمل ہیں لیکن حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کے نمائندے کے نام کا اعلان وزیرستان جانے کیلئے ابھی تک نہیں کیا گیا۔

جیسے ہی حکومت کی جانب سے نمائندے کے نام کا اعلان ہوگا تو وزیرستان جانے کی تاریخ بھی متعین کردی جائے گی۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ طالبان سے آئین کے تحت مذاکرات کا مطالبہ کرنے والے خود آئین کی اسلامی دفعات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٴٹ ہیں۔ اگر ملک میں آئین اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہوجائے تو ہم بھی طالبان سے آئین کے تحت مذاکرات کا لکھ کر لے آئیں گے۔

آئین کی اسلامی دفعات کے نفاذ کے سلسلے میں اسلامی نظریاتی کو نسل کی سفارشات کو بھی یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ خواہش ہے کہ امن کا یہ عمل ہمارے ہاتھوں تکمیل تک پہنچے اورہم قوم کو بڑی خوشخبری دے سکیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بنوں میں جنوبی اضلاع کے امراء اور سیکرٹریز کی دو روزہ تربیت گاہ کے شرکاء سے خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر شعبہ فہم دین کے صوبائی انچارج اور نائب امیر مولانا محمد اسماعیل اور ان کے معاون اکرام راہی نے بھی خطاب کیا۔

پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ فوج کو مذاکرات کے عمل شامل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس جنگ کا آغاز فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ہی کیا تھا۔مشرف کا فیصلہ عقل کی بنیاد پر نہیں بلکہ امریکہ کے خوف اور لالچ کی بنیاد پر تھا۔ ملاقات کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے یہ بات تسلیم کی کہ ہماری طرف سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی یہی پالیسیاں جاری رکھیں۔

ہم اسی لئے طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی ، پی پی پی اور ایم کیو ایم آپریشن کا شوق پورا کرلیں لیکن میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپریشن کے نتیجے میں اپنے علاقے چھوڑ دینے والے لوگوں کا حال دیکھ لیں کہ وہ کس طرح کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس وقت آپریشن کا اثر صرف کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا پاکستان اس کے اثرات کی لپیٹ میں آئے گا۔

جب ایک دفعہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتوں نے نواز حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار دے دیا تو اب شور کیوں مچا رہے ہیں ۔انشاء اللہ مذاکرات کامیاب ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ شیطان کے چیلے شیطانی نظام کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہیں لیکن ہم انبیاء کی تحریک کے سپاہی ہیں ۔ انبیاء جو دین لائے ہیں اس کا نفاذ ہم پر فرض ہے۔ پاکستان بناتے وقت ہمارے بزرگوں نے عوام سے عہد کیا تھا کہ اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوگا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اسلام کا عادلانہ نظام نافذ نہیں کیا جاسکا۔

اس وقت امت مسلمہ مسائل سے دوچار ہے ۔ حکمران اللہ کی غلامی کو چھوڑ کر امریکہ کے غلام بن گئے ہیں۔ شرکاء پر زور دیتے ہوئے پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کو جنوبی اضلاع کی سب سے بڑی دینی اور سیاسی جماعت بنانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ جبکہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئر مین مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان قیادت اور شوریٰ نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے طالبان کمیٹی پر دوبارہ اعتماد کا اظہار کردیا ہے ، اب ہم حکومتی بااختیار کمیٹی کی تشکیل کا انتظار کررہے ہیں امید ہے دو دنوں میں حکومتی بااختیار کمیٹی سامنے آجائیگی جسکے بعد حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات شروع کرادینگے ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ کے صحافیوں کامران خٹک اور تفہیم الرحمان سے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ہم مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے ہر قسم کا تعاون کررہے ہیں ،وزیر اعظم بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے میں مخلص ہیں لیکن مذاکرات کا فیصلہ سازی اور نتیجہ خیز دور کے آغاز سے قبل وفاقی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں وزیر اعظم اپنے وزراء کے بیانات کا نوٹس لیکر ان سے باز پرس کریں طالبا ن غیر ملکی نہیں ہیں کہ انکے لئے علیحدہ دفتر کا مطالبہ کیا جائے طالبان نے علیحدہ دفتر کا مطالبہ نہیں کیا ،نائن الیون کے بعد حکومتی پالیسیوں سے ناراض ہوگئے تھے ،اب ہم حکومت اور طالبان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کررہے ہیں حکومت سے صلح ہوجانے کے بعد طالبان ملک کے جس حصے میں جانا چاہیں آزادانہ نقل وحرکت کرسکتے ہیں مذاکرات شمالی وزیر ستان میں ہونگے یاپشاور میں اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ،طالبان کمیٹی کی وزیرستان میں موجودگی میں ڈرون پروازیں جاری رہیں جسکے باعث طالبان کمیٹی اور طالبان شوریٰ بات چیت کیلئے جگہے بدلتے رہے دشمن قوتیں مذاکرات سبوتاژ کرنے کیلئے ہرحربہ استعمال کررہا ہے لیکن ہم دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائینگے ۔

طالبان مذاکراتی کمیٹی نے کہا ہے کہ براہ راست بات چیت کے لئے حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔ طالبان کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ نے یہ بات ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نئی کمیٹی کے نام انہیں کل تک مل جائیں گے، جب کہ طالبان نے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں موجودہ کمیٹی پر ہی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔کمیٹی کے دوسرے رکن پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ وہ براہ راست مذاکرات کے لئے وزیرستان جانے کو بھی تیار ہیں۔