اوگرا عملدرآمد کیس،، ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کے تحت ہیں‘ تفتیشی اداروں کی تفتیش کے نام پر بددیانتی‘ بدنیتی پر ایکشن لینے کا مکمل اختیار حاصل ہے،سپریم کورٹ،سب کام چیئرمین نیب پر نہیں چھوڑ سکتے وہ صبح کچھ اور شام کو کچھ اور حکم جاری کردے ، جسٹس جواد ایس خواجہ

منگل 11 مارچ 2014 08:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ میں اوگرا عملدرآمد کیس میں تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پیر کے روز اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کے تحت ہیں‘ تفتیشی اداروں کی تفتیش کے نام پر بددیانتی‘ بدنیتی پر ایکشن لینے کا مکمل اختیار حاصل ہے‘ لوگ اربوں روپے لوٹ کر فرار ہوجائیں اور نیب ان کو چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ دیتا رہے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں ایسا نہیں ہوسکتا‘ 80 ارب ڈکارنے والے شخص کیخلاف کارروائی اور تحقیقات میں تاخیر پر عدالت کیسے نوٹس نہیں لے سکتی‘ سب کام چیئرمین نیب پر نہیں چھوڑ سکتے کہ وہ صبح کچھ اور شام کو کچھ اور حکم جاری کردے جبکہ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی تفتیش میں تاخیر یا بددیانتی پر عدالت کو مداخلت کا مکمل اختیار حاصل ہے اس حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل گذشتہ روز دئیے۔ اوگرا عملدرآمد کیس میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین کو بھی تمامتر اختیارات حاصل ہیں۔ تحقیقات کرنا ایف آئی اے کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 2013ء میں یہی فیصلہ دیا تھا۔ میمو گیٹ سکینڈل کیس کا بھی حوالہ دیا (3) 184 کے تحت فوجداری نوعیت کے جرم کی سماعت نہیں کی جاسکتی۔

عمران خان کیس میں بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ تحقیقات کا حکم نہیں دے سکتی۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد ریاض کیس کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم قومی خزانے کو لٹتے ہوئے دیکھتے رہیں اور کوئی ادارہ اگر تحقیقات نہیں کررہا تو ہم بھی اسی کی طرح خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں۔ کے کے آغا نے کہا کہ حبیب بینک لمیٹڈ نجکاری کیس میں بھی واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ تحقیقات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

خصوصی عدالت میں عدالت ایکشن لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران جسٹس جواد نے ان سے پوچھا کہ کن کن معاملات میں سپریم کورٹ کچھ نہیں کرسکتی۔ پراسیکیوٹر کہتے ہیں کہ چیئرمین نیب جو مرضی کرتا رہے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ سپریم کورٹ محض تماشا دیکھ سکتی ہے۔ یہ تو سنگین حالات ہیں۔ اے جی نے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں یا سیاسی معاملات میں عدالت کو ایکشن کا اختیار حاصل ہے۔

2010ء کا عدالتی فیصلہ موجود ہے جس میں اصول وضع کردئیے گئے ہیں۔ ریویو بورڈ کے معاملات بھی بتائے گئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ نیب پر ریویو بورڈ موجود نہیں ہے جو ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ دے سکے۔ اے جی کا کہنا تھا کہ اے آئی آر 1998ء سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ چیئرمین کا کہا حرف آخر سمجھ لیا جائے۔

چیئرمین کا فیصلہ دن کو اور رات کو اور بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو قانون کو دیکھنا ہے کہ وہ چیئرمین کو کس حد تک اختیار دیتا ہے تاہم یہ طے ہے کہ چیئرمین نیب کی کسی بھی غفلت کا جائزہ لینے کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔ اے جی نے کہا کہ جب کسی ملزم کیخلاف چارج شیٹ مکمل کرکے پیش کردی جاتی ہے تو پھر باقی کام عدالت کا ہے کہ وہ ملزم کیخلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔

بیوروکریسی یا سیاستدانوں کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے معاملات ہوں تو اس حوالے سے عدالت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے احکامات جاری کرسکتی ہے اور پراپر تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔ انہوں نے سی بی اے کی تحقیقات بارے عدالتی دائرہ کار بھی بتلادیا۔ عدالت کی مانیٹرنگ کا مقصد تحقیقات کو جلداز جلد شفاف طریقے سے مکمل کرنا ہے اور یہ اس وقت تک مانیٹرنگ جاری رہتی ہے کہ جب تک تحقیقات مکمل کرکے عدالت میں پیش نہ کردی جائیں۔

اے جی نے بتایا کہ اب تو ریویو بورڈ موجود ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر ریویو بورڈ بھی موجود ہو تو کیا عدالت کا کوئی فیصلہ موجود ہے کہ اس حوالے سے کوئی مداخلت کرنے کا عدالت کو اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ کب ریویو بورڈ قائم کیا گیا تھا اور سی بی آئی اس کے دائرہ کار میں تھا۔ ممبر کس طرح بنتے تھے اور کیا کام کرتا تھا اس کے باوجود سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ کام صحیح نہیں کررہے ہیں تو اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اس میں بنیادی حقوق کا سوال اٹھے گا کہ عدالت کیا کام کررہی ہے۔ ہمیں پاس جوڈیشل ریویو کا اختیار حاصل ہے۔ اے جی نے بتایا کہ اسی سے ملتا جلتا عدالت کا ایک اور فیصلہ بھی موجود ہے۔ اگر تحقیقات میں بدنیتی کا ارتکاب کیا جارہا ہو تو ہائیکورٹ کو بھی آئین کے مطابق مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر ہمیں نیب حکام بتادیں کہ 45 دن مناسب وقت نہیں‘ 90 دن دے دیں اور 90 دن گزرنے کے باوجود تفتیشی تک مقرر نہیں کیا جاتا تو ہم کیا کریں۔

80 ارب روپے ایک شخص لے اڑا ہے‘ تحقیقات یہ ہوتی ہیں کہ یہ پیسہ کون لے گیا ہے اور کیوں لے گیا ہے۔ نیب کے دلائل سن کر لگتا ہے کہ ہم اپنا کردار بھول ہی جائیں اور سب کچھ نیب پر ہی چھوڑ دیں۔ اے جی نے ارشد خان کیس کا حوالہ بھی دیا جس میں تحقیقات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ عدالت نے مداخلت کی اور اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے کہ کیا عدالت کو ریویو کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اختیارات کا توازن اور حدود و قیود کیا ہوں گی۔ اے جی نے کہا کہ مجھے چند ایک صفحات اور پڑھنے ہیں پھر آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ پولیس افسر کیخلاف جاری تحقیقات میں اگر دوسرا پولیس افسر بددیانتی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے۔ اے ایس آئی ایک جرم میں ملوث تھا تفتیشی نے بچانے کی کوشش کی تھی۔

جسٹس جواد نے کہاکہ دو سو سے تین سو سالہ پرانے انتظامی حوالے کے قوانین ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ پولیس تفتیش میں پیٹی بھائی کو بچانے کی بات کرتی ہے۔ یہ بھی بھائی چارہ کی تحت رقم کھانے والے کو بچانا ہے۔ پولیس اور نیب کی تحقیقات میں فرق رواء رکھنے کیلئے ہمیں تمام معاملات کا جائزہ لینا ہوگا۔ اے جی نے کہا کہ وقت دے دیں منگل کو مزید دلائل دوں گا۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ قوانین پرانے ضرور ہیں مگر عدالت کے اپنے اختیارات ہیں۔ عدالت نے بعدازاں مقدمے کی سماعت (آج) منگل کو دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔